کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 40
مامون الرشید ایک مرتبہ اپنے ایک مصاحب عبد اللہ بن طاہر سے ناراض ہو گیا اور ایک خفیہ مجلس میں کچھ لوگوں سے اسے قتل کرانے کا منصوبہ بنایا، اتفاق سے اس مجلس میں عبد اللہ بن طاہر کا ایک خیر خواہ دوست موجود تھا، اس نے فوراً عبد اللہ کے نام ایک رقعہ لکھا جس پر صرف عبارت تحریر تھی:
بسم الله الرحمن الر حيم
یہ رقعہ جب عبد اللہ بن طاہر کے پاس پہنچا تو وہ حیران ہوا، دیر تک اس خط کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا، مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ کنیز برابر میں کھڑی تھی، جب کافی دیر گزر گئی تو بولی:
’’اس کا مطلب میری سمجھ میں آ گیا۔‘‘
عبد اللہ نے پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘
کنیز نے کہا: ’لکھنے والے نے قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے:
﴿ قَالَ يٰمُوْسٰٓى اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّىْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ 20 ﴾
’’اے موسیٰ! سردار تمہیں قتل کرنے کا مشورہ کر رہے ہیں، اس لیے یہاں سے نکل جاؤ میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں۔‘‘
عبد اللہ اس وقت مامون کے دربار میں جانے کا ارادہ کر رہا تھا، مگر اب اس نے ارادہ منسوخ کر دیا اور اس طرح اس کی جان بچ گئی۔ (حیاۃ الحیوان : ص 126 جلد اول)