کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 38
صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بت نے تو مجھ کو بڑا نفع دیا (صحابہ کرام حیران و پریشان ہوگئے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیسی بات کررہا ہے، بھلابت بھی کسی کو نفع دے سکتا ہے) یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں زمانہ جاہلیت میں ایک دفعہ سفر پر روانہ ہوا، میں نے ستوؤں کا بت بنایا، راستہ میں کھانا ختم ہوگیا، میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، میں نے اپنے بت کو توڑ کر کھا لیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بت نے مجھے بڑا ہی نفع دیا، تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کی یہ بات سن کر ہنس پڑے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسکرانےلگے۔( علمی مزاح، از پروفیسر منور حسین چیمہ)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں ابراہیم بن رباح موصلی سے منقول ہے کہ ایک شخص نے ان پر کچھ مال کا دعویٰ کیا، آپ کو قاضی کے سامنے لایاگیا، آپ نے فرمایا یہ اپنے دعویٰ کی سچائی پر حلف کرلے اور لےلے، اس شخص نے ان الفاظ سے شروع کیا۔ والله الذی لا اله الا هو’’ یعنی قسم کھاتا ہوں اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ آپ نے فرمایا ان الفاظ سے حلف کرو، والله والله والله، جس مال کا دعویٰ کرتا ہوں وہ حسین کے ذمہ واجب ہے اس شخص نے حلف کرلیا، ذرا کھڑا ہوا ہی تھا کہ اس کے پاؤں ڈگمگائے اور مرکر جا پڑا آپ سے پوچھا گیا( کہ آپ نے حلف کے الفاظ کیوں بدلوائے) آپ نے فرمایا مجھے اندیشہ ہوا کہ یہ اللہ کی تمحید بیان کر رہا ہے اس کے ساتھ حلم کا معاملہ ہو جائے گا۔ (لطائف علمیہ، اردو ترجمہ، کتاب الاذکیا)
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بنت عمیس کا نکاح یکے بعد دیگرے تین ایسے عظیم المرتبت