کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 37
(ابوداؤد، ج 1 ص 348 باب فی السبق علی الرجل کتاب الجھاد)
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ چمڑے کے ایک چھوٹے خیمہ میں تشریف فرما تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا ''اندر آجاؤ۔'' میں نے عرض کا: ''أکلی یا رسول اللہ'' کیا سارا ہی اندر آجاؤں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کلک'' سارے ہی آجاؤ۔ چنانچہ میں اندر چلا گیا، سیدنا ولید بن عثمان بن ابوالعالیہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے جو یہ کہا کہ '' کیا میں سارا ہی اندر آجاؤں؟ یہ خیمہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔ (ابوداؤد ص 326، ج2 باب ماجاء فی المزاح)
حبان بن منقد انصاری رضی اللہ عنہ صحابی تھے، اور ان کا پیشہ تجارت سے منسلک تھا ۔چنانچہ ایک دفعہ تجارت میں ان کے ساتھ دھوکہ ہو گیا، آپ رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سارا ماجرا سنایا کہ ان کے ساتھ تجارت میں دھوکا ہو گیا ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا آئندہ جب بھی تم تجارت کرو تو سودا کرنے سے پہلے کہہ دو کہ دھوکہ نہیں چلے گا۔ (بخاری)
ایک روایت میں ہے کہ ایک دن سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حلقے میں رونق افروز تھے، ایک صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی : یا رسول اللہ