کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 36
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند جانثاروں کے ساتھ تشریف فرما تھے کسی نے کجھوریں تحفہ بھیجیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرما دیا کھاؤ اور خود بھی کھانے لگے اس محفل میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی تھے جو ان سب سے کم عمر تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کجھوریں کھا کر گھٹلیاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے کے سامنے رکھنا شروع کر دیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کیا جب کھانے سے فارغ ہو گئے تو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ سب سے زیادہ کجھوریں کس نے کھائی ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کے آگے زیادہ گھٹلیاں ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بڑے ذہن ثابت ہوئے فوراً بولے نہیں جنہوں نے گھٹلیاں تک نہیں چھوڑیں وہ سب سے زیادہ کھا گئے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر سب ہنس پڑے۔ (رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم کی مسکراہٹیں) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں گئی میں اس  وقت نو عمر تھی میرے جسم پر گوشت بھی کم تھا اور میرا بدن بھاری نہیں تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا آپ لوگ چلے جائیں چنانچہ سب چلے گئے پھر مجھ سے فرمایا: آؤ  میں تم سے دوڑ کا مقابلہ کروں۔ چنانچہ ہم دونوں میں مقابلہ ہوا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے آگے نکل گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر میرے جسم پر گوشت زیادہ ہو گیا اور میرا بدن بھاری ہو گیا اور میں پہلے قصہ کو بھول گئی پھر میں آپ کےساتھ سفر میں گئی۔ آپ نے لوگوں سے کہا آگے چلے جاؤ لوگ آگے چلے گئے پھر مجھ سے فرمایا: آؤ میں تم سے دوڑ میں مقابلہ کروں چنانچہ ہم دونوں میں مقابلہ ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آگے نکل گئے۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسنے لگے اور فرمایا: یہ پہلی دوڑ کے بدلے میں ہے۔ (اب معاملہ برابر ہو گیا)