کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 34
کروں گا۔ اور اگر اب میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں تو تو پھر کوئی اور سوال تو نہ کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں! اے میرے مالک ! میں اور سوال نہ کروں گا۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کردے گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہوگا اور پہلے کے دونوں درختوں سے بہتر ہوگا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ میں اس کے سایہ تلے رہوں اور اس کا پانی پیوں، اب میں کچھ اور سوال نہ کروں گا۔(اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لیے کہ وہ ایسی نعمتوں کو دیکھ رہا ہے جن پر صبر نہیں کرسکتا) آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے قریب کردے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس پہنچ جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا۔ اے میرے رب! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا! اے آدم کے بیٹے! تیرے سوال کو کیا چیز پورے کرے گی؟ یعنی تیری خواہش کب موقوف ہوگی اور یہ بار بار سوال کرنا کب بند ہوگا؟ بھلا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر دوں اور اتنا ہی اور دوں؟ وہ بندہ کہے گا: اے میرے پروردگار! آپ مجھ سے مذاق اور ہنسی کرتے ہیں ، باوجود اس کے آپ سارے جہاں کے مالک اور شہنشاہ ہیں۔ (یہ واقعہ بیان کر کے) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے اور اپنے شاگردوں سے فرمایا: تم مجھ سے پوچھتے کیوں نہیں کہ میں کیوں ہنس رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: اچھا فرمائیے بے محل کیوں ہنس پڑے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح اس حدیث کے بیان کرتے وقت ہنس پڑے تھے۔اس وقت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کیوں ہنس پڑے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العالمین کواسی طرح ہنستے ہوئے دیکھ کر مجھے بھی ہنسی آگئی۔ جب بندہ یہ کہے گا، آپ سارے جہان کے پروردگار ہوتے ہوئے بھی مذاق فرماتے ہیں ۔ اللہ