کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 31
فتح مکہ اور غزوہ حنین کی کامیابی کے بعد جب مسلمانوں نے طائف کا محاصرہ کیا تو مسلمانوں کو سخت مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ مگر کامیابی نہ ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کل انشاء اللہ محاصرہ اٹھا کر واپس چلیں گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد لوگوں پرگراں گزرا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا فتح کیے بغیر ہی واپس لوٹ چلیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو کل لڑو چنانچہ دوسرے دن مسلمان پھر لڑے تو فتح کی بجائے الٹے زخمی ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: کل انشاء اللہ محاصرہ ختم کرکے واپس چلے جائیں گے۔ ‘‘ اس دفعہ لوگوں نے واپس لوٹنا بخوشی قبول کر لیا اور عرض کیا ٹھیک ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہو۔ صحابہ کے اس جواب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے کہ اب مار کھا کر بات مانی۔(بخاری) حدیث شریف کی بہت ساری کتابوں میں سیدہ ام سلیم کے بیٹے عمیر کا ایک دلچسپ واقعہ بڑی وضاحت کے ساتھ آیا ہے۔ ان کے ایک بیٹے ابوعمیر جو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی صلب سے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہت محبت تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے جاتے تو ابوعمیر سے بہت محبت کرتے ۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو بچے کا چہرہ بجھا بجھا سا تھا۔ سیدہ ام سلیم سے پوچھا: کیا بات ہے۔ عمیر کا چہرہ اداس ہے انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوعمیر کی چڑیا(نغیر) جس کے ساتھ یہ کھیلتا تھا، وہ مرگئی ہے جس کی وجہ سے یہ غمزدہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت سے ابوعمیر کو اپنے پاس بلایا اور مسکراتے ہوئے فرمایا: یا ابا عمیرمافعل النغیر۔ اے ابوعمیر تمہاری چڑیا کو کیا ہوا؟ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال سنتے ہی ابوعمیر ہنس پڑے اور عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ تو مرگئی۔