کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 30
جماعت نماز پڑھنے اور منبر کے پاس بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سنتے۔ ان خوبیوں کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے بہت سفقت فرماتے۔ ایک مرتبہ طائف سے انگور آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی محبت سے ان کو بلا کر انگوروں کے دو خوشے عطا فرمائے اور فرمایا: بیٹا یہ ایک تمہارا ہے اور ایک تمہاری والدہ کا گھر جا کر والدہ کو یہ دے دینا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ننھے صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفہ لے کر چلے تو اپنا حصہ راستہ ہی میں کھا لیا اور اپنی والدہ کا حصہ بھی سرراہ میں ہی ہضم کر گئے۔ کچھ دن بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ک بیٹا: انکوروں کا خوشہ اپنی والدہ کو دے دیا تھا۔ انہوں نے سچ سچ کہہ دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں، انگور بڑے مزیدار تھے وہ سارے تو میں خود ہی کھا گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکراتے ہوئے بڑی شفقت سے ان کا کان پکڑا اور فرمایا: غدار (بڑے مکار ہو) اپنی والدہ کا حصہ بھی چٹ کر گئے ہو۔ ارباب سیرنے لکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی عمر 8سال 7 ماہ کے قریب تھی۔(رسول اللہ کی مسکراہٹیں) زید ابن اسلم رحمتہ اللہ علیہ راوی ہیں کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئیں اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا شوہر بلاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا شوہر وہی نہیں جس کی آنکھ میں سفیدی ہے۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’ ان کی آنکھیں تو اچھی ہیں ان میں سفیدی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ہے۔ ام ایمن رضی اللہ عنہا نے قسم کھائی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی ایسا شخص نہیں جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو، یعنی حدقہ چشم( آنکھ کا حلقہ) ہر انسان کا سیاہی اور سفیدی دونوں رکھتا ہے۔( مذاق العارفین ص181ج3)