کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 24
آئے اور ان لوگوں کو بھی ساتھ لائے اور آکر ان لوگوں سے کہا:’’ یہ رہا تمہارا وہ غلام ، اسے لے لو۔ جب یہ لوگ سیدنا سویبط رضی اللہ عنہ کو پکڑنے لگے تو سیدنا سویبط رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ سیدنا نعیمان رضی اللہ عنہ غلط کہہ رہے ہیں، میں تو آزاد آدمی ہوں۔‘‘ ان لوگوں نے کہا:’’ انہوں نے تمہاری یہ بات پہلے ہی بتا دی تھی‘‘ چنانچہ وہ لوگ سیدنا سویبط رضی اللہ عنہ کے گلے میں رسی ڈال کر لے گئے۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس آئے جب انہیں اس قصہ کا پتہ چلا تو وہ اور ان کے ساتھی خریدنے والوں کے ساتھ گئے اور ساری بات بتا کر ان کی اونٹنیاں انہیں واپس کیں اور سیدنا سویبط رضی اللہ عنہ کو واپس لے کر آئے۔ پھر مدینہ واپس آکر ان حضرات نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سارا واقعہ سنایا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اس قصہ کو یاد کرکے ہنستے رہے(ان حضرات کے دل بالکل صاف ستھرے تھے اور سویبط رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ سیدنا نعیمان رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں ہنسی مذاق بہت ہے اس لیے انہوں نے کچھ برانہ منایا۔(حیاۃ الصحابہ:574/2، کنزالعمال:ج881/3۔حدیث8022) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح تابعین اور سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ رہا ہے اور ان کے ہاں بھی ایسے واقعات کثرت سے ملتے ہیں وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش طبعی فرمایا کرتے تھے مثلا: ایک شخص نے امام ابومحمدرحمتہ اللہ علیہ سے کہا کہ میں نصف درہم میں ایک گدھا کرایہ پر لیے تمہارے پاس ےآیا ہوں تاکہ فلاں فلاں حدیث کے بارے میں تم سے کچھ سوال کروں۔(یعنی اس نے نصف درہم کو علم حدیث پر ترجیح دی لہذا ) امام ابومحمدرحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بقیہ نصف درہم میں پھر گدھا کرایہ پر لے کے واپس لوٹ جاؤ۔(کتاب الاذکیاء از امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ) غالب القطان کہتے ہیں کہ میں ایک دن ابن سیرین کے پاس گیا اور پوچھا کہ