کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 22
گی یا تمھارے منہ پر مل دوں۔ وہ خاموش بیٹھی رہی اور کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے۔ میں نے پیالے سے تھوڑا سا حریرہ لیا اور اس کے منہ پر مل دیا۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر مسکرائے اور سودہ بنت زمعہ سے کہا کہ تم بھی اس کے چہرے پر حریرہ مل کر اپنا بدلہ لو۔ اس نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مان کر حریرہ میرے چہرے پر ملا۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا یہ رہا نہ بدلہ۔ ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ناراض ہوکر ذرا اونچی آواز میں بات کرنے لگیں۔ اتفاق سے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ آگئے۔ انھوں نے یہ گستاخی دیکھی تو اس قدر برہم ہوئے کہ بیٹی کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو اٹھ کر درمیان میں آگئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بچا لیا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ طیش سے بھرے ہوئے واپس لوٹ گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر چھیڑنے کی غرض سے فرمایا:"کیوں میں نے تم کو کیسا بچایا؟" تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی زیر لب مسکرا دیں۔ (ابو داؤد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپس میں مزاح فرمایا کرتے تھے اور اپنی مجلسوں میں خوش طبعی کا ماحول پیدا کر لیتے تھے۔ سیدہ اسما ء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ رضی اللہ عنہا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ ان کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ بنیں۔ سیدنا اسماء رضی اللہ عنہا کے دونوں صاحبزادوں محمد بن جعفر اور محمد بن ابی بکر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاں پرورش پائی۔ ایک دن دونوں صاحبزادوں نے ایک دوسرے سے باہم فخر سے کہا کہ ہم تم سے بہتر ہیں اس لیے کہ ہمارے باپ تمھارے باپ سے بہتر تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ