کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 20
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عمیر رضی اللہ عنہ سے اس لیے کہا کہ جب ابو عمیر کی بلبل مر گئی تو وہ غمزہ ہو گئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا غم دور کرنے کی خاطر ان سے خوش طبعی کرتے ہوئے ایسا کہا تاکہ ان کا غم دور ہو جائے، معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کے ساتھ اس قسم کی خوش طبعی کرنا درست ہے۔ (تنقیح الرواۃ: 3/ 2) سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کا نام ظاہر بن حرام تھا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تحائف لاتا تھا اور جب  وہ شخص (واپس) جانے کا ارادہ کرتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے (شہری سامان ضرورت کے مطابق) دیا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس میں کچھ شک نہیں کہ ’ظاہر‘ جنگل میں ہمارا کارندہ ہے اور ہم شہر میں اس کے کارندے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت فرماتے تھے، اگرچہ وہ بدصورت تھا۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جبکہ وہ اپنا سامان بیچ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیچھے سے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیا مگر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا۔ چنانچہ اس نے پکارا مجھے چھوڑ دو؟ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مڑ کر  دیکھا نو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا۔ چنانچہ وہ پورا زور لگانے لگا کہ اپنی کمر کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے ساتھ ملائے رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پکارنے لگے: ’اس غلام کو کون خریدے گا؟‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی قسم! اکر آپ مجھے بیچیں گے تو بہت کم قیمت ملے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: البتہ اللہ کے ہاں تو بے قیمت نہیں ہے۔‘‘ (شرح السنۃ) عوف بن مالک الشجعی بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمڑے کے خیمے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سلام کا جواب اور دیا اور فرمایا: ’’اندر آ جاؤ۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں سارے کا سارا