کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 183
ابو الحسن المدائنی کا بیان ہے کہ مدائن میں ایک کھجور فروش رہتا تھا، وہ بخیل تھا اس کا نوکر جب دکان میں داخل ہوتا تو یہ ا س کی نگرانی کے لیے کوئی نہ کوئی حیلہ کرتا، کبھی کبھار تو دکان کے اندر چھپ کر بیٹھ جاتا نوکر پر کھجور کھانے کی تہمت لگا دیتا، ایک دن اس نے نوکر سے پوچھ لیا لیکن اس نے کھجور کھانے کا الزام درست ہونے سے انکار کر دیا اس پر مالک نے روئی منگوائی پھر نوکر کو دی ، نوکرنے روئی کو چبائی، جب روئی کو منہ سے نکالی تو اس پر زردی تھی اور اس میں میٹھاس تھی، یہ دیکھ کر مالک نے نوکر سے کہا کہ یہ تیرا ہر روز کا معمول ہے اور مجھے اس کا علم نہیں ہوتا لہذا میرے گھر سے نکل جا۔(بخیلوں کے انوکھے واقعات: ترجمہ پروفیسر عبدالرزاق) لاہور میں کانگریس کے ورکروں نے ایک پا پیادہ جلوس نکالا، اہتمام یہ کیا گیا کہ جلوس میں شامل تما افراد ننگے پاؤں ہوں۔ مولانا ظفر علی خاں نے جلوس کو دیکھ کوفی البدیہہ یہ شعر کہا: کانگریس آرہی  ہے ننگے پاؤں جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا ( ادبی شرارتیں از کلیم نشتر) جوش مشاعروں میں اپنا کلام سنارہے تھے، مہندر سنگھ بیدی داد دیتے ہوئے کہنے لگے...... ’’ دیکھئے کم بخت پٹھان کیسے غضب کے شعر پڑھ رہا ہے۔‘‘ جوش بے ساختہ بولے: ’’ اور ظالم سکھ کیسی اچھی داد دے رہا ہے۔‘‘(ادبی شرارتیں از کلیم نشتر)