کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 180
اس وقت تاریکی ہے، تمہارے پاس روشنی کا کوئی انتظام بھی نہیں، میرے پاس ایسی کھیس(گائے یا بھینس کا گاڑھا دودھ جو بچہ پیدا ہونے کے تین دن تک رہتا ہے) ہے جو آج تک کسی نے نہ دیکھی ہوگی اور ایسی کھجوریں ہیں کہ عمدگی میں اس کا جواب نہیں، ایسی عمدگی تو صرف انہی کھجوروں میں ہے۔
میں اس کے ساتھ یعنی اس کے ہاں رات گزارنے پر امادہ ہوگیا، وہ گھڑی بھر دیر کرکے آیا تو اپنے ساتھ گاڑھے دودھ کی کھیس کا ایک پیالہ اور کھجوروں کی ایک طشتری لے آیا۔
جب میں نے (کھانے کو) ہاتھ بڑھایا تو بولا:’’ اے ابوعثمان! یہ کھیس ہے اور بڑی گاڑھی ہے، رات کا وقت ہے اور سناٹا چھایا ہوا ہے، پھر بارانی بھیگی رات ہے، تم عمر رسیدہ آدمی ہو اور تم پر ابھی تک کسی قدر فالج کا اثر بھی باقی ہے اور اب بھی استسقاء اور پیٹ کی حدت کے مریض ہو اور تم صاحب عشاء یعنی رات کا کھانا کھانے کے عادی نہیں ہو، اگر تم نے کھیس کھا لی اور سیر ہو کر نہ کھائی تو گویا نہ تم نے یہ کھیس کھائی اور نہ چھوڑی، یوں گویا تم نے اپنی طبیعت کے ساتھ چھیڑ خانی کی اور اپنی شدید ترین خواہش یعنی کھیس کھانے کی خواہش کو قطع کردیا تو تمہارا شمار نہ کھانے والوں میں ہوگا اور نہ چھوڑنےوالوں میں ، یوں گویا تم نے اپنے نفس کو کھانے کے لیے برانگیختہ کیا اور پھر کھانا نفس کی شدید خواہش کے باوجود چھوڑدیا اور اگر تم نے پیٹ بھر کر کھا لیا تو گویا ہمیں ساری رات تمہارے معاملے میں بے چین رہنا پڑے گا نہ ہم تمہارے لیے نبیذ تیار کر سکیں گے اور نہ شہد۔
میں نے تمہیں یہ بات اس لیے کہی ہیں تاکہ کل یہ نہ کہہ سکو کہ یوں ہوا اور یوں ہوا یعنی تم نے مجھے اس کھانے کے نقصان سے باخبر نہ کیا ، بخدا میں تو شیر کی دو داڑھوں کے درمیان آپھنسا ہوں، کیوں کے کھانے کے لیے اگر میں تمہیں