کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 178
پکڑ دھکڑ کی پالیسی کی بنا پر روپوش تھے، مطلبی صاحب نے ترسون زادہ کو اس صورت سے باخبر کرنے کے لیے کہا:’’ اور زیر زمین است۔‘‘ ترسون زادہ’’زیر زمین‘‘ سے کیا سمجھے ،اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سجاد ظہیر کے لیے دعائے مغفرت کے واسطے ہاتھ اٹھائے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس دعا میں شامل ہونے کے لیے اشارہ کیا ...بڑی مشکل سے انہیں اس حقیقت سے باخبر کیا گیا کہ سجاد ظہیر ابھی بقیہ حیات ہیں اور زیر زمین کا مطلب وہ نہیں جو ترسون زادہ سمجھے ہیں۔ایسی ہی ایک طویل ملاقات میں جب ترسون زادہ سے پاکستانی ادیب خواتین کی ملاقات کرائی گئی تو انہوں نے پوچھا کہ یہ خواتین ادبی تخلیق کے علاوہ ملازمت وغیرہ بھی کرتی ہیں؟ فارسی ترجمان نے جواب دیا:’’ زناں ایں جاپیشہ نمی کنند۔‘‘ لفظ’’پیشہ‘‘ پر حاضرین قہقہہ لگا کر ہنس پڑے،فارسی ترجمان کو بھی اپنی حماقت کا احساس ہوا لیکن شاید ان کے پاس کوئی متبادل لفظ نہ تھا۔(ادبی شرارتیں از کلیم نشتر) ابو یعقوب الدقنان کہا کرتا تھا کہ میں جب سے مالدار ہوا ہوں، میں نے گوشت کھانے کا کبھی ناغہ نہیں کیا۔ وہ کرتا یہ تھا کہ جمعہ کے دن ایک درہم میں گائے کا گوشت خریدتا تھا اور ایک دانق کا پیاز خریدتا تھا اور ایک دانق کا بینگن خرید لیتا اور ایک دانق کا کدو اور اگر گاجر کا موسم ہوتا تو ایک دانق کی گاجر خریدتا اور ان سب چیزوں کو سرکے میں سکباج کرکے پکاتا۔ اس دن وہ اور اس کے گھر والے ہانڈی کے اوپر سے کچھ سالن لے کر روٹی کھا لیتے، اس سے ہانڈی میں پیاس، بینگن ،گاجر اور کدو، چربی اور لحم گوشت سے کچھ نہ گھٹتا یعنی سب چیزیں علی حالہا برقرار رہتیں ،ہفتے کے دن وہ شوربے میں