کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 177
جائے گی، یا بچی ہوئی گوشت کی بوٹی، اور بچا ہوا سالن ، گوشت اتری ہوئی ہڈی ، بچا ہوا بھنا گوشت اور چھوٹے بڑے برتنوں میں بچا ہوا جام، مربہ وغیرہ لایا جائے گا، لیکن اس کی توقع کے برعکس لونڈی ایک طشتری لے کر آئی جس میں چاولوں کی ایک خشک روٹی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ جب اس کے سامنے دسترخوان بچھا گیا تو اس نے اپنا ہاتھ بڑھایتا ، وہ چونکہ اندھا تھا اس کا ہاتھ سیدھا اس خشک روٹی پر پڑا وہ میزبان کی اس بات سے کہ تکلف کی کوئی بات نہیں، یہ تو جان چکا تھا کہ کھانا تھوڑا ہوگا لیکن اسے اس بات کا وہم و گمان بھی نہ تھا کہ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے، جب اسے اس خشک روٹی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آیا تو بول پڑا کہ تمہارا ستیاناس ہو، تم نے اس کھانے کے لیے تما تکلفات برطرف رکھ دیے اور بات صرف اس کھانے پر آکر ٹھہری۔ (کتاب البخلاء از ابو ابوعثمان عمرو بن بحر الحافظ) 1949ء کے آخر میں لاہور میں منعقد ہونے والی ترقی پسندمصنفین کی کانفرنس میں روس کے ادیبوں کا ایک تین رکنی وفد آیا، کانفرنس کے لیے غیررسمی ملاقاتوں کے درمیان پاکستانی ادیبوں نےمحسوس کیا کہ روسی اہل قلم کے ساتھ جو ترجمان آیا ہے وہ انگریزی زبان میں ان ادیبوں کی گفتگو کا مفہوم پوری طرح نہیں پہنچاپا رہا، روسی وفد میں تاجکستان کے شاعر و ادیب ترسون زادہ بھی شامل تھے، جو فارسی زبان اچھی طرح جانتے تھے، پاکستانی ادیبوں نے سوچا کہ کسی فارسی داں کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ ترسون زادہ تک اپنی بات بہ آسانی پہنچائی جاسکے، چنانچہ سید مطلبی فریدآبادی کو اس کام پر آمادہ کیا گیا جو بڑے عالم اور فارسی داں تھے، دوران گفتگو ترسوں زادہ نے پوچھا کہ سید سجاد ظہیر کہاں ہیں؟....... سجاد ظہیر ان دنوں حکومت کی