کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 175
نطعمکم لوجه الله لا نرید منکم جزاء ولا شکورا ’’ ہم تمہیں اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلا رہے ہیں ہم تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے۔‘‘ مطلب یہ کہ اگر مفت کھانا ہے تو اتنا کھاؤ جتنا میں نے کھایا ہے یہ میری خوشی سے ہے اگر زیادہ کھانا ہے تو کھانے کی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ (کتاب الخلاء از ابو عثمان عمرو بن بحر الحافظ) مجید لاہوری سے ان کے کسی دوست نے پوچھا... ’’مجید صاحب! آپ دنیا بھر کے لوگوں کا مضحکہ اڑاتے ہیں، کبھی آپ کا بھی کسی نے یوں مذاق اڑایا ہے۔‘‘ ’’ہاں ایک بار ‘‘ مجید نے جواب دیا: ’’ہوا یوں کہ میں دفتر سے نکلا سڑک پر آیا، ایک رکشہ والے کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کہا کیماڑی لے چلو گے؟‘‘ رکشہ والے نے میرے تن وتوشی کو غور سے دیکھا ، یوں جیسے وزن کررہا ہو اور پھر بولا’’لے چلوں گا مگر دو پھیروں میں۔‘‘(ادبی شرارتیں از کلیم نشتر) حاحظ کا کہنا ہے کہ عبداللہ عروضی نے گوشت بوننے والے کو گوشت پکانے کی بجائے گوشت بھوننے پر اسی کوڑے مارے تھے، اصل واقعہ یہ ہے کہ اس نے گوشت بھوننے والے کہا کہ جب ہم دستر خوان پر بیٹھ جائیں تو تم سے کہوں گا کہ تم نے گوشت بھوننے میں دیرکردی تم جواب دینا کہ (پکنے) میں تھوڑی سی کسر رہ گئی ہے، پھر تم ہمارے پاس( گوشت کو) اس طرح لے آنا گویا میں نے تم سے جلدی کروائی