کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 172
نیو یارک سے واپسی پر پطرس بخاری اپنے بے تکلف دوستوں کو بتا رہے تھے:"جناب! میں نے وہاں ایسے ایسے سٹورز دیکھے کہ ایک ہی جگہ ضروریاتِ زندگی کی ہر شے مل جاتی ہے۔" صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے یہ سن کر حقے کی نَے ایک طرف کی اور کہنے لگے: "صاحب! پھر تو امریکہ موچی دروازہ ہوگیا نا........جہاں سے جو چیز چاہولے لوں۔" (ادبی شرارتیں از کلیم نشتر) زبیدہ بن حمید صراف نے ایک سبزی فروش سے جس کی دوکان اس کے گھر کے دروازے پر تھی دو درہم اور ایک قیراط قرض لیا، چھ ماہ گزرنے پر جب اس نے سبزی فروش کا قرض ادا کیا تو اسے دو درہم اور تین جو کے دانوں کے برابر (وزن) چاندی ادا کردی۔ (یہ دیکھ کر) سبزی فروش غضبناک ہو کر بولا: "سبحان اللہ۔" آپ ایک لاکھ دینار کے مالک ہیں اور مجھ سبزی فروش کے پاس تو سو فلس(پیسہ) بھی نہیں میں محنت و مشقت کرکے ایک یا دو دانے منافع لے کر گزر اوقات کررہاہوں، آپ کے دروازے پر ایک مزدور اپنی مزدوری کے لیے چلا رہا تھا اور آپ کے پاس مال نہیں تھا اور آپ کا وکیل بھی موجود نہ تھا، تو میں نے آپ کی طرف سے (مزدور) لو دو درہم اور چار دانے جو(کے مقدار) ادا کر دیے تھے، آپ چھ ماہ بع دو درہم اور تین دانے جو کے ادا کر رہے ہیں۔ زبیدہ نے جواب دیا: پاگل آدمی! تم نے مجھے گرمیوں کے موسم میں قرضہ دیا تھا اور میں تمھیں سردی کے موسم میں قرضہ واپس ادا کررہا ہوں اور سردیوں کے موسم