کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 165
جانا پہچانا طریقہ ہے اور جو روئی کا کوئی ٹکڑا مل جاتا تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ روئی کو جمع کرکے زیر پلان بنانے والوں کے ہاتھ فروخت کردیتا، اسی طرح کپڑوں کے ٹکڑوں اور پہننے کے پھٹے ہوئے کپڑوں کو چینی اور مٹی کے برتن بنانے والوں کے ہاتھ فروخت کردیتا اور جو بوتلیں مل جاتیں تو وہ شیشہ گروں کے ہاتھ بیچتا اورکھجور کی گٹھلیاں ایندھن والوں کے ہاتھ فروخت کردیتا اور جو انار کے چھلکے مل جاتے تو انھیں کپڑااورچمڑا رنگنے والوں کے ہاتھ فروخت کرتا....... اگر آڑو کی گٹھلیاں مل جاتیں تو انھیں مالیوں اور باغبانوں کے ہاتھ فروخت کرتا، کیل اور لوہے کے ٹکڑے لوہاروں اور آہنگروں کو بیچ دیتا، کاغذ مل جاتے تو انھیں نقش ونگار بنانے والوں کے ہاتھ بیچتا، پیالوں اور پلیٹوں کو گھڑوں کے ڈھکنوں کے لیے فروخت کرتا اور لکڑی کے ٹکڑے زین سازوں کے ہاتھ بیچتا اور ہڈیوں کے ٹکڑے ایندھن کے طور پر فروخت کرتا اور گھاس کے ٹکڑے نئے تنوروں میں کام آنے کے لیے فروخت کرتا اورجو کنکرپتھر ملتے وہ اکٹھا کرکے مکان بنانے کے لیے فروخت کرتا، اس کے بعد اس کچرے کو ہلاتا جلاتا اور چیزیں الگ الگ کرتا تاکہ ردی چیزں اکٹھی ہوجاتیں تو انھیں تنور میں پھینک دیتا اگر تارکول ملتا تو اسے تارکول والوں کے ہاتھ بیچتا، اس کے بعد جب صرف مٹی رہ جاتی تو اسے فروخت کرکے اینٹیں تیار کرتا یا کسی اور کام میں لاتا، وہ تمام گھر والوں کو ہدایت کرتا کہ وہ وضو اور غسل ایسی مٹی پر کریں تاکہ اس پانی سے یہ مٹی جب گارا بن جائے تو وہ اس سے اینٹ تیار کرے۔
وہ کہا کرتا تھا: "جو شخص میری طرح کفایت شعاری کرنا نہیں جانتا، اس کے منہ ہی نہ لگنا چاہیئے۔"
(بخیلوں کے انوکھے واقعات: ترجمہ پروفیسر عبدالرزاق)