کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 163
ہچکچاتے ہوئے دیکھا تو ہنس کر کہنے لگے: ’’مولانا تشریف لائیے تکلف کیسا؟ یہ تو غنیۃ الطالبین ہیں۔‘‘ مولانا سالک ہنسے اور برجستہ کہا: ’’تو گویا باہر والی خاتون دلائل الخیرات ہیں۔‘‘ ایک شخص جوہری کے ہاں کھانے پر آن پہنچتا تھا وہ کھانے کا وقت تاڑ لیتا اور کبھی اس سے نہ چوکتا، جب وہ داخل ہوتا تواس وقت لوگ کھانے کھارہے ہوتے، یہ شخص دستر خوان بچھتے ہی پکارتا: خدا فرقہ قدریہ پر لعنت کرے، بھلا مجھے اس کھانے سے کون روک سکتا ہے جب کہ لوح محفوظ پر یہ لکھ دیا گیا ہے کہ میں یہ کھانا ضرور کھاؤں گا۔ جب اس شخص کا یہ معمول کثرت اختیار کرگیا تو ریاح نے اس شخص سے کہا کہ  تم رات کو یا صبح سویرے آؤ اگر تجھے کھانے کو کچھ مل گیا تو نہ صرف فرقہ قدریہ بلکہ ان کے آباء واجداد اور ان کی ماؤں پر بھی لعنت کرنا۔(کتاب البخلاء از ابوعثمان عمروبن بحر الحافظ) دیوال حویلیاں میں چوہدری شیرزمان رہتے ہیں کہتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے اس علاقے میں ہندو سکھ اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ بھی لگاتے شام کو بیٹھ کر باتیں کرتے ایک سکھ گبت سنگھ ہوتا تھا اس نے ایک روز بیٹھے بیٹھے محفل میں موجود مسلمانوں سے پوچھا کہ تم مسلمان کیسے ہوتے ہو...؟ لوگوں نے کہا کلمہ پڑھ کر۔