کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 162
ہیں میں تو محض داڑھی کا شاعر ہوں۔‘‘ (ادبی شرارتیں از کلیم نشتر) خاقان بن صبیح نے کہا کہ میں ایک خراسانی کے ہاں رات کے وقت گیا تو وہ روشنی کے لیے ہمارے پاس ایک چراغ لے آیا، جس میں بہت باریک بتی تھی، اس شخص نے چراغ کے تیل میں تھوڑا سا نمک ڈال دیا تھا( اس کے خیال کے مطابق یوں تیل کم خرچ ہوتا تھا) اس نے چراغ دان کے ستون کےساتھ ایک لکڑی دھاگے کے ساتھ باندھ کر آویزاں کر رکھی تھی اور اس لکڑی میں ایک سوراخ کر رکھا تھا جس سے باندھنے کے لیے اس میں جگہ بن گئی تھی، جب چراغ کی روشنی کی روشنی بجھنے لگتی تو اس لکڑی کے ساتھ یہ شخص بتی کو ذرا اونچی کر دیتا ، میں نے اس سے پوچھا کہ بندھی ہوئی لکڑی کا کیا مقصد ہے ، اس نے بتایا کہ اس لکڑی نے ایک دفعہ تیل جذب کر لیا ہے اگر یہ لکڑی ضائع ہوگئی اورحفاظت سے نہ رکھی گئی تو ہمیں بتی اونچی کرنے کے لیے ایک نئی سوکھی لکڑی کی ضرورت ہوگی ( جو دوبارہ اپنے اندر تیل جذب کرے گی) اور ہماری اور لکڑی کی یہ صورت یوں ہی برقرار رہی تو مہینہ بھر کا تیل ایک ہی رات میں ختم ہوجائے گا۔( کتاب البخلاء از ابو عثمان عمروبن بحر الجاحظ) مولانا عبدالحمید سالک مشہور مترجم اور ادیب حکیم حبیب اشعر سے ملے ان کے مطب میں داخل ہوئے، ان کی نظر ایک فربہ اندام بدہیئت سی خاتون پر پڑی جو برآمدہ میں بیٹھی پان چبا رہی تھی ، مولانا اس پر اچٹتی سی نظر ڈالتے ہوئے، حکیم صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے لیکن یہ دیکھ کر رک گئے کہ وہاں ایک نوخیز خاتون حکیم صاحب سے محو گفتگو ہے، حکیم صاحب نے جب سالک صاحب کو