کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 161
سمجھتا ہے اگر میں کہوں حنبلی تو لوگ کہتے ہیں کہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ تو ہماری طرح ہے یعنی اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ ہیں۔ باقی رہے اہلحدیث اگر میں کہتا ہوں کہ میں اہلحدیث کی جماعت سے ہوں تو لوگ کہتے ہیں یہ تو ’’سانڈ‘‘ ہے اسے تو کوئی سمجھ ہی نہیں۔(مقدمہ تفسیر الکشاف) روایت ہے کہ عبدالملک بن قیس الذئبی نے اہل بصرہ کے اشراف یعنی معززین میں سے ایک شخص کو دعوت پر بلایا ،عبدالملک کھانے کے معاملے میں تو بخیل تھا، لیکن مال (درہم) دینے کے سلسلے میں سخی تھا یہ شخص اپنے ساتھ ایک مسکین آدمی کو بھی لے آیا،جب عبدالملک نے اسے دیکھا تو سخت دل تنگ ہوا اور اس کی طرف متوجہ ہو کر گویا ہوا کہ تجھے اپنے پاس (دعوت پر) روکے رکھنے سے ایک ہزار درہم دینا زیادہ بہتر ہے ،چنانچہ اس نے ہزارہ درہم دینے کا تاوان قبول کرلیا لیکن ایک روٹی یا کھانا کھلانا برداشت نہ کرسکا۔ (کتاب البخلاء از ابو عثمان عمرو بن بحر الحاحظ) ایک دفعہ مشاعرہ ہو رہاتھا، مشاعرہ کی کمپیئرنگ کرتے ہوئے مہندر سنگھ بیدی نے بزرگ اور دراز ریش مشاعر کا تعارف کرایا: ’’اب میں زحمت کلام دوں گا چوٹی کے شاعر جناب فنا نظامی بدایوانی کو کہ وہ اپنی غزل سنائیں۔‘‘ مولانا مائک کے سامنے آئے ،اپنی لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگے: ’’حضرات ! سردار صاحب نے درست نہیں کہا۔’’ چوٹی‘‘ کے شاعر تو وہ خود