کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 159
مار دیے ، شہر کے بچوں نے اس کا نام ’’پیر کتے مار‘‘ مشہور کردیا، جہاں جاتے لوگ اسی نام سے اس کو پکارے ایک دن بچارہ تنگ آگیا اور مرزا صاحب سے شکایت کی کہ لوگ مجھے یوں کہتے ہیں، مرزا غلام احمد نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ’’کوئی بات نہیں..... اگر لوگ تجھ کو ’’پیر کتے مار‘‘ کہتے ہیں تو میرا نام بھی حدیث میں ’’ سور مار‘‘ آیا ہے یعنی ’’یقتل الخنزیر‘‘ (یعنی وہ خنزیر کو قتل کرے گا) اس لیے تم پیر کتے مار ہو اور میں پیر سور مار ہوں۔( علمی لطائف) ابن حسان نے کہا کہ ہمارے ہاں ایک نادار شخص رہتا تھا اور اس کا ایک بھائی مال دار تھا لیکن حدسے زیادہ بخیل اور شخی خور تھا، ایک دن اس سے نادار بھائی نے کہا کہ تم پر افسوس ہے کہ میں ایک عیال دار مفلس شخص ہوں اور تم مال دار ذمہ داریوں کے بوجھ سے ہلکے ہو، تم میرے برے وقت میں میری مدد نہیں کرتے اور کچھ اپنے مال کے ذریعے میری دلجوئی نہیں کرتے اورمیرا کچھ بوجھ ہلکا نہیں کرتے، اللہ کی قسم! میں نے تم سے زیادہ بخیل کبھی سنا نہ دیکھا، تو اس نے جواب دیا کہ تم پر بڑا افسوس ہے، معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا تم سمجھتے ہو اور نہ میرے پاس مال ہے جیسا کہ تمہارا خیال ہے اور نہ میں تمہارے قول کے مطابق بخیل اور خوشحال ہوں،بخدا اگر میرے پاس دس لاکھ درہم ہوتے تو میں تمہیں یقیناً پانچ لاکھ درہم دے دیتا، لوگو! کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جو شخص بیک جنبش پانچ لاکھ درہم بخشش کرے وہ بخیل کہلائے۔(کتاب البخلاء از ابو عثمان عمرو بن بحر الحافظ)