کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 155
ایک دفعہ کسی نے آپ سے پوچھا کہ ’’ آپ کے بڑے بھائی ذولفقار علی کا تخلص گوہر ہے، آکے دوسرے بھائی محمد علی کا تخلص جوہر ہے۔ آپ کا تخلص کیا ہے؟ کہنے لگے: ’’شوہر‘‘۔ (ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ لاہور جنوری ٢٠٠٤) اگرچہ مولانا شوکت عربی کو نہیں جانتے تھے مگر جب کبھی کوئی عرب سے آجاتا تھا تو اس سے عربی میں بات کرنے کی کوشش کرتے تھے، ایک دفعہ چند نوجوان سر ہو گئے کہ ’’آپ عربی نہیں جانتے تو عربی میں بات کیسے کر لیتے ہیں؟‘‘ اس پر مولانا بگڑ کر کہنے لگے: ’’ واہ! یہ کیا بات ہے، ہم عربی خوب جانتے ہیں۔‘‘ کسی لڑکے نے پوچھا: ’’اچھا بتائیے گھٹنے کو عربی میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ مولانا نے بے تامل جواب دیا: ’’گھٹنا عرب میں ہےہوتا ہی نہیں۔‘‘ اس مضحکہ خیز جواب پر سارے لڑکے مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ پنجاب کے مشہور اور ہر دلعزیز شاعر ’’امام دین گجراتی‘‘ ایک دن اپنے چند مداحوں کے ساتھ سڑک کے کنارے چل رہے تھے، ایک مداح نے کہا: حضرت! یہ جی۔ٹی روڑ ہے، اس کی شان میں کچھ ارشاد ہو جائے کہنے لگے: لو پھر سن لو۔ ’’یہ سڑک!! لاہور سے پنڈی کو جاتی ہے بے دھڑک‘‘ شاگردوں نے کہا: ’’ جناب یہ کیسا شعر ہے۔‘‘ پہلا مصرعہ اتنا مختصر اور دوسرا اتنا طویل! شعر کا وزن مناسب نہیں، امام دین صاحب فرمانے لگے، ارے نالائقو تم کیا جانو امام دین کے تخیل کو؟ بات یوں ہے کہ شعر کا پہلا مصرع سڑک کی چوڑائی کو ظاہر کررہا ہے جبکہ