کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 154
تھوڑی دیر کے بعد جب محفل خوب جم رہی تھی تو حامد علی خاں نے کیفی سے کچھ سنانے کے لیے کہا: اس پر کیفی نے فی البدیہہ اسی لہجہ میں حامد علی خاں کے کان کے پاس اپنامنہ لے جاکر کہا: اکیاسی بیاسی تراسی چوراسی پچاسی چھیاسی ستاسی اٹھاسی اس پر ساری محفل کشت زعفران بن گئی اور دیر تک یہ لطیفہ نقل محفل بنا رہا۔ (ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ لاہور جنوری 2004ء) ایک مرتبہ مولوی فیض الحسن سہارنپوری کو بھی بڑا خفیف ہونا پڑا، ہوا یہ کہ ایک مشاعرے سے رات گئے مولانا اور مرزا غالب واپس آرہے تھے اپنے اپنے گھر کے لیے دونوں کو ایک تنگ گلی میں سے گزرنا پڑا بیچ گلی میں ایک گدھا کھڑا تھا جس سے راستہ رک گیا تھا ، غالب نے اس گدھے کو ایک طرف کیا، اس پر بطور مزاح مولانا نے کہا کہ مرزا صاحب !دلی میں گدھے بہت زیادہ ہیں، غالب اس طنز کو بھلا کب برداشت کرسکتے تھے ،فورا جواب دیا :’’نہیں مولانا! باہر سے آجاتے یں۔‘‘ اس لطیف چوٹ کا جواب مولانا سے بن نہ آیا اور چھینپ کر چپ ہوگئے۔(ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ لاہور جنوری 2004ء) سیاسیات میں ہمیشہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کا نام اکھٹا لیا جاتا ہے اور ’’علی برادران‘‘ کے نام سے ان کو پکارا جاتا رہا لہذا کوئی وجہ نہیں کہ ادبیات میں ان کو اکٹھا کیوں نہ رکھا جائے ،اگرچہ مولانا شوکت علی ادبی آدمی نہیں ہیں۔