کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 153
مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو جب پہلی بار دل کا دورہ پڑا تو وہ اپنے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے دفتر کے چند رفقاء عیادت کے لیے ان کے پاس اندر چلے گئے ،صاحبزادہ ابراہیم صاحب نے آہستگی سے پوچھا مولانا آپ کو دبا دوں؟مولانا نے برجستہ جواب دیا بھئی! مجھے اتنا بڑا آمر نہیں دباسکا تو آپ کیا دبائیں گے؟(یہ ایوب خاں کا آخری دور تھ)۔(اردو ڈائجسٹ دسمبر: 1986 ص 197) ایک دفعہ اسماعیل بن غزوان نماز پڑھنے کےلیے ایک مسجد میں داخل ہوا اس نے دیکھا کہ صف مکمل ہے وہ دوسری صف میں اکیلا کھڑا نہ ہوسکتا تھا، اس نے اگلی صف سے ایک شیخ یعنی بزرگ آدمی کا کپڑا کھینچ لیا تاکہ وہ دوسری صف میں آکر اس کے ساتھ کھڑا ہوا، جب شیخ پیچھے آیا تو اسماعیل آگے بڑھ کر اس شیخ کی جگہ جا کھڑا ہوا اور شیخ کو اکیلے پچھلی صف میں چھوڑ دیا جو پیچھے سے اسماعیل کو دیکھتا رہ گیا۔ (بخیلوں کے انوکھے واقعات :ترجمہ پروفیسر عبدالرزاق) 1984ء میں پنڈت برجموہن کیفی دہلوی لکھنؤ گئے تو وہاں ایک شعر وسخن کی مجلس میں مسٹر حامد علی خاں جو شعر وادب کا بہت اچھا مذاق رکھتے تھے،کسی غزل یا نظم کی فرمائش کی، ان مرحوم کی طبیعت میں بھی ظرافت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔کیفی کے کان کے پاس منہ لے جا کہا کہ: اکہتر بہتر تہتر چوہتر پچھتر چھہتر ستتر اٹھہتر اس مذاق کو سن کر کیفی نے خوب داد دی۔