کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 151
کوئی امید نہ رہی، لڑکوں نے علاج پر دس بارہ ہزار روپے خرچ کردیے، زندگی تھی، کسی طرح بچ گیا، جب تندرست ہوگیا توایک دن دکان پر بیٹھا ہوا تھا لیکن بہت گم سم اور غمگین ہو کر دوستوں اور عزیزوں نے مبارکباد دیں کہ تم تندرست ہوگئے ہو، مگر وہ خوش معلوم نہ ہوتا تھا، کسی نے پوچھا: سیٹھ جی! کیا بات ہے؟ یہ توخوشی کا مقام ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو دوبارہ زندگی دی ہے لیکن آپ تو بڑے غمگین دکھائی دیتے ہیں، سیٹھ کہنے لگا: بھئی! بات یہ ہے کہ اتنا روپیہ دوا دارو میں خرچ ہوگیا پھر بھی مرنا ابھی باقی ہے، سوچتا ہوں لگے ہاتھوں اسی خرچہ پر مربھی جاتا تو کم از کم دوبارہ مرض الموت اور موت کے بعد کا خرچ ہی بچ جاتا۔(علمی مزاح پروفیسر منور حسین حیمہ) مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتابوں کےمسودے املایا ٹائپ نہیں کراتے تھے، اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ بیماری کے زمانے میں لوگوں نے انہیں مشورہ دیا کہ’’ سیرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے مدنی دور کے جو حصے زیر ترتیب ہیں وہ اگر آپ خود نہیں لکھ سکتے تو ڈکٹیٹ کروادیا کریں تاکہ یہ سلسلہ جاری رہے مولانا نے ازراہ خوش طبعی کہا:’’ میں ڈکٹیٹ کرانے کا عادی نہیں ہوں کیوں کہ میں کسی معنی میں بھی ڈکٹیٹر کہلوانا پسند نہیں کرتا۔‘‘(علمی مزاح:صفحہ163) ایک روز نواب مرزا داغ دہلوی نماز پڑھ رہے تھے، ایک صاحب ملنےآئے اوران کو نماز میں مشغول دیکھ کر لوٹ گئے، اسی وقت داغ نے سلام پھیرا ، ملازم سے کہا:’’ فلاں صاحب آئے تھے اور چلے گئے، فرمانے لگے:’’ دوڑ کر جا، ابھی راستے