کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 150
تیسرے بیٹے نے کہا کہ ہڈی مجھے دو تو باپ نے پوچھا کہ تم اس کا کیا کروں گے تو بیٹے نے جواب دیا کہ میں اس ہڈی کو ابال کر اس کا رس نکال لوں گا، توباپ نے کہا کہ ہاں! تو ہڈی لینے کا حق دار ہے۔ (کتاب البخلاء از ابوعثمان عمرو بن بحر الجاحظ) دلی میں مرزا محمد رفیع سودا کی شاعری کا پرچار ہوا تو شاہ عالم بادشاہ اپنا کلام اصلاح کے لیے ان کے پاس بھیجنے لگے، بادشاہ نے کوئی غزل اصلاح کے لیے بھیجی تھی، اس کی اصلاح پر دیر ہوئی تو بادشاہ نے تقاضا کیا اور پوچھا کہ ’’ مرزا! ایک دن میں کتنی غزلیں بنالیتے ہو؟‘‘ مرزا نے کہا: ’’ پیرومرشد! طبیعت حاضر ہوتو دو چار شعر کہہ لیتا ہوں۔‘‘ بادشاہ کہنے لگے:’’ واہ ہم تو پے خانہ میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔‘‘ مرزا نے بادشاہ کا خیال کیے بغیر بڑی بے پروائی سے جواب دیا: پیرومرشد پھر ان غزلوں میں سے بوبھی ویسی ہی آتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر چلے آئے اور پھر نہ گئے۔( ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ لاہور جنوری:2004ء) سود خور شخص کو دنیا کی ہرجیز، حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ دولت سے محبت ہوتی ہے ، قرآن کریم نے بھی سود کھانے والے شخص کی حالت کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ یہ دولت کے پیچھے اس طرح دیوانوں کی طرح پھرتا ہے جیسے کسی کو شیطان نے مس کردیا ہو، اور کل آخرت میں بھی اس کا یہی حال ہوگا۔ پاکستان بننے سے قبل دہلی میں ایک سود خور بنیا تھا جو سخت بیمار ہوگیا، بچنے کی