کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 148
چار پائی پر بیٹھ گئے، جس پر استاد بیٹھے تھے۔ پھر چارپائی کا یک تنکا توڑ کر چٹکی سے اس کو مروڑنے لگے، یہ دیکھ کر شیخ صاحب نے ملازم سے جھاڑو منگوائی اور افضل کے سامنے رکھ کر کہنے لگے: اس سے شوق فرمایئے، میری چارپائی اس قابل نہیں کہ آپ اس سے مشق ستم کریں، وہ آپ کے تھوڑے سے التفات سے برباد ہو جائے گی۔‘‘ (ماہنامہ بیدار ڈائجسٹ لاہور، جنوری ۲۰۰۴ء) شیخ قلندر بخش جرأت اس دور کے مشہور شاعر تھے اور انشاء کے دوست تھے مگر نعمت بصارت سے محروم تھے۔ ایک روز انشاء کی ملاقات کو گئے، دیکھا کہ بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے۔ انشاء نے پوچھا: میاں کس فکر میں بیٹھے ہو؟‘‘ جرأت نے جواب دیا: ’’ ایک مصرع خیال میں آیا ہے چاہتا ہوں کہ مطلع ہو جائے۔‘‘ انہوں نے پوچھا: ’’ وہ مصرع کیا ہے؟‘‘ جرأت کہنے لگے مصرع تو بڑا عمدہ ہے مگر جب تک دوسرا مصرع نہ بن جائے گا بتلاؤں گا نہیں ورنہ تم مصرع لگا کر اسے چھین لو گے۔‘‘ جب انشاء نے بہت زیادہ اصرار کیا تو آخر جرأت نے مجبور ہو کر یہ مصرع ان کو سنایا۔۔۔۔۔ اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی اس پر سید انشاء کی رگ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے فوراً کہا اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی  ؎ چونکہ جرأت نابینہ تھے اس لیے یہ پھبتی ان پر چسپاں ہو کر رہ گئی، انہیں بڑا غصہ آیا اور وہ لاٹھی لے کر انشاء کو مارنے اٹھے انشاء فوراً کود کر باہر آگئے۔ (ماہنامہ بیدار ڈئجسٹ لاہور، جنوری: ۲۰۰۴ء)