کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 145
مرزا غالب کے پاس اکثر گمنام خطوط گالیوں سے بھرے ہوئے آیا کرتے تھے جن میں ان کی شاعری پر اعتراض کیے جاتے تھے اور اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ ایک روز اسی قسم کا ایک خط آیا جس میں ان کو ماں کی گالی دی گئی تھی۔ پڑھ کر کہنے لگے:’’ اس الو کو گالی دینی بھی نہیں آئی۔ بوڑھے یا ادھیڑ آدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے۔ جو ان کو جورو کی گالی دیتے ہیں کیوں کہ اسے اپنی بیوی سے زیادہ تعلق ہوتا ہے ۔بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں کیوں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا، یہ قرم ساق جو 72برس کے بوڑھے کو ماں کی گالی دیتا ہے اس سے زیادہ بے وقوف کون ہوگا؟‘‘ ایک دفعہ رمضان کے بعد مرزا غالب قلعہ میں گئے ۔بادشاہ نے پوچھا: ’’مرزا کتنے روزے رکھے؟‘‘ عرض کیا: ’’پیرومرشد ! ایک نہیں رکھا۔‘‘ ایک پرلطف شعروسخن کی محفل میں غالب بیٹھے ہوئے میرتقی میر کی تعریف کر رہے تھے ،شیخ ابراہیم ذوق سے کہا: ’’میرے خیال میں تو سودا کو میر پر ترجیح ہے۔‘‘ اس پر غالب نے کہا:’’ واہ شیخ صاحب! میں تو آپ کو میری سمجھتا تھا، آج معلوم ہوا کہ آپ سودائی ہیں۔‘‘ ایک رئیس سد سردار مغرب کے بعد مرزا سے ملنے آئے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر واپس جانے لگے تو مرزا ہاتھ میں شمعدان لے کر بسبب پیری کھسکتے ہوئے لب فرش