کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 144
بولا گدھا کہاں ہے؟ اس نے کہا میں ہوں، بے وقوف نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے، اس نے کہامیں اپنی والدہ کی نافرمانی کرتا تھا اس لیے مجھے مسخ کرکے گدھا بنا دیا گیا تھا اور کافی دن تیری خدمت رہا ہوں اور میری ماں مجھ سے راضی ہوگئی ہے اس لیے میں دوبارہ آدمی بن گیا ہوں، بے وقوف نے کہا کہ لاحول ولا قوۃ میں تجھ سے خدمت کیسے لیتا رہا تو تو مردار ہے، اس نے کہا یہ تو ہوا ہے بے وقوف بولا چل اللہ کی پھٹکار میں دفع ہو جا، یہ چلا گیا اور بے وقوف واپس اپنے گھرآیا اور بیوی سے کہنے لگے تجھے پتا ہے کہ آج ایسا ایسا ہوگیا ہے اور ہم ایک مردار سے خدمت لیتے رہے اب ہم کس طرح توبہ استغفار کریں اور کس طرح کفارہ دیں بیوی نے کہا جس طرح ممکن ہو صدقہ وغیرہ دے دو، پھر کچھ دن کے بعد بیوی نے کہا اب تم بار برداری کا کام کیسے کروگے، جاؤ کوئی دوسرا گدھا خریدو تاکہ ہم اپنا کام چلائیں وہ بازار گیا اور دیکھا کہ اس کا گدھا بکنے کے لیے کھڑا ہے اور اس کی بولی لگ رہی ہے یہ اس کے پاس گیا اور بولا اے مردار ماں کی نافرمانی پھر کردی۔(حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقی ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ) ایک دفعہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ سر پر پگڑی باندھے کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں ایک گاؤں کا ایک رہنے والا شخص ملا، اس نے شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کو روک کر ایک خط دیا اور کہا اسے پڑھ دیجئے، شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ خط لے کر پڑھنے لگے مگر خط کی عبارت ایسی تھی کہ پڑھ نہ سکے، گاؤں والے نے غصے میں آکر کہا:’’ اتنی بڑی پگڑی سر پر باندھ رکھی ہے اور خط نہیں پڑھ سکتے؟‘‘ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پگڑی اس کے سر پر رکھی اور بولے، تم خود پڑھ لو۔‘‘(ننھے مجاہد:2دسمبر2005ء)