کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 142
کلام نہیں سناتے تھے ایک مشاعرے میں اتفاقا یہی دو اساتذہ باقی رہ گئے، بےخود دہلوی نے اپنی غزل نکالی اور پڑھنے لگے تو سائل دہلوی نے کہا:’’ دیکھو یہ بدتمیزی نہ کرو۔‘‘ مولانا بے خود دہلوی نے انہیں حیرانی سے دیکھتے ہوئے غزل تہہ کرکے جیب میں رکھی اور بولے: ’’اچھا تم بدتمیزی کرلو۔‘‘ (ننھے محافظ :23 ستمبر 2005ء)
ایک مرتبہ حسب معمول سلیم مولانا الطاف حسین حالی کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا اور مولانا سے پوچھنے لگا: ’’حضرت! میں نے غصے میں آکر اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تجھ پر تین طلاق، لیکن بعد میں مجھے اپنے کیے ہوئے پر افسوس ہوا، میری بیوی بھی راضی ہے مگر مولوی کہتے ہیں کہ طلاق پڑ گئی ہے۔ اب صلح کی کوئی شکل نہیں ،اللہ کے لیے میری مشکل آسان فرمائیں اور کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ میری بیوی گھر میں دوبارہ آباد ہوسکے۔‘‘
ابھی مولانا حالی کوئی جواب نہیں دینے پائے تھے کہ مولوی سلیم اس شخص سے کہنے لگے کہ :’’ بھئی یہ بتاؤ کہ تو نے طلاق تے سے دی تھی یا ط سے؟‘‘ اس شخص نے کہا :’’ جی میں تو ان پڑھ اور جاہل آدمی ہوں، مجھے کیا پتا کہ ت سے کیسی طلاق ہوتی ہے اور ط سے کیسی ہوتی ہے؟‘‘
سلیم نے اسے سمجھایا کہ میاں یہ بتاؤ کہ تم نے قرات کے ساتھ کھینچ کر کہا تھا کہ ’’تجھ پر تین طلاق‘‘ جس میں ط کی آواز پوری نکلتی ہے یا معمولی طریقہ پر کہا تھا جس میں ط کی آواز نہیں نکلتی ت کی آواز نکلتی ہے۔
بے چارے غریب سوال کنندہ نے کہا:’’ جی مولوی صاحب! میں نے معمولی طریقہ پر کہا تھ، قرات سے کھینچ کر نہیں کہا۔‘ یہ سننے کے بعد مولوی صاحب نے