کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 141
سجستان میں ایک بوڑھا نحو پڑھاتا تھا اس کا ایک بیٹا تھا اس نے اپنے بیٹے کو کہا کہ جب تو کوئی بات کہنا چاہے تو اسے عقل پر پیش کر اور اپنی کوشش سے اس پر غور کر جب تو اسے پرکھ لے تو پھر یہ پرکھا ہوا کلمہ منہ سے نکال ،ایک دن یہ دونوں سردی کے دن میں بیٹھے تھے اور آگ جل رہی تھی اچانک ایک انگارہ باپ کے کتانی جبہ پر آپرا اسے پتا نہ تھا بیٹے نے دیکھ لیا پہلے اس نے تھوڑا سوچا پھر ک ہا ابا جی میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں اجازت دے دیں،باپ نے کہا اگر حق بات ہے تو کہہ اس نے کہا اسے حق سچ سمجھتا ہوں ،باپ نے کہا کہہ اس نے کہا کہ میں ایک لال چمکتی ہوئی چیز دیکھ رہا ہوں باپ نے کہا وہ کیا، اس نے کہا کہ ایک انگارہ آپ کے جبہ پر گر پڑا ہے باپ نے اپنا جبہ دیکھا تو وہ کافی جل چکا تھا اس نے کہا تو نے مجھے جلدی سے کیوں نہ بتادیا، بیٹے نے کہا کہ جیسا آپ نے کہا تھا میں اس کے مطابق میں نے پہلے غور کیا پھر پرکھا پھر بات کی، اس کے بعد اس کے باپ نے قسم کھائی کہ آئندہ نحو کے ساتھ بات نہیں کرے گا۔
(حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقی ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ)
جب مطلوب الحسن محمد علی جناح کے سیکرٹری بنے تو حاضرین کے پہلے دن انہوں نے جناح سے دریافت کیا:’’ جناب والا! میرے لیے خاص ہدایات ؟‘‘
جواب ملا:’’ آنکھیں اور کان کھلے رکھیں اور منہ بند۔‘‘
نواب سائل دہلوی اور مولانا بے خود دہلوی ایک ہی مشاعرے میں اکٹھے اپنا