کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 140
ہزار درجہ بہتر تھی۔ (حالات شیخ سعدی از احمد حسین خان، ص 52، 53)
عباسی خلیفہ مستنصر باللہ (623ھ تا 640ھ) شعر وشاعری کا اچھا ذوق رکھتا تھا وہ شعراء کا بڑا قدر دان اکثر شاعر اس کو اچھے قصائد لکھ کر سناتے تھے اور انعام واکرام حاصل کرتے تھے۔
اس کے دربار میں ایک شاعر وجیہ قیروانی بھی تھا۔ ایک دن وہ بادشاہ کی شان میں ایک قصیدہ لکھ کر لایا۔ بادشاہ نے بڑی توجہ سے یہ قصیدہ سنا۔ اس کا ایک شعر تھا جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’یعنی اے امیر المؤمنین اگر آپ سقیفہ (بنی ساعدہ کی اس بیٹھک کا نام ہے جہاں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی پہلی بیعت ہوئی تھی) کے دن موجود ہوتے تو آپ ہی امام (خلیفہ) مقرر کیے جاتے۔‘‘
مستنصر نے یہ شعر سنا تو بہت پسند کیا، وجیہ قیروانی کو اس شعر پر خواب داد ملی لیکن اس وقت دربار میں ایک حق گو اور حق پرست موجود تھا، اس نے کہا: ’’نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ شعر ہمارے عقیدے اور ایمان کے بھی خلاف ہے، وجیہ کیا تجھ کو نہیں معلوم کہ اس وقت امیر المؤمنین کے جد امجد سیدنا عباس رضی اللہ موجود تھے، وہ صحابی رسول بھی تھے، لیکن سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں ان کو امام نہیں بنایا گیا۔ پھر امیر المؤمنین کو کیسے امام بنایا جا سکتا تھا۔‘‘
یہ حق بات سن کر مستنصر بہت متاثر ہوا، اس نے اس شخص کو خلعت عطا کی اور وجیہ شاعر کو شہر بدر کرا دیا۔ (تاریخ الخلفاء از سیوطی بحوالہ ذہبی)