کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 139
ہیں ‘‘ وہ کہنے لگا: ’’ تو پھر انہوں نے سیدنا حسین کے قتل کے وقت فریاد نہیں کی یا ان کی فریاد سنی نہ گئی؟ ‘‘ شاہ صاحب نےکہا : ’’ فریاد کی تو تھی لیکن اللہ تعالی نے جواب دیا کہ تمہارے نواسے کو قوم نے ظلم سے شہید کر دیا لیکن ہمیں اس وقت اپنے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کا صلیب پر چڑھنا یاد آ رہا ہے۔‘‘ (عیسائی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔)
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں، میں ایک دفعہ فرنگیون (انگریزوں) کا قیدی ہوگیا، اور انہوں نے یہودیوں کے ساتھ مجھے طرابلس کی خندق کی مٹی کے کام پرلگادیا، حلب کا ایک رئیس جس سے میری پہلے جان پہچان تھی وہاں سے گزرا اور اس نے مجھے پہچان لیا اور کہا: یہ کیا حالت ہے؟ میں نے سارا واقعہ عرض کر دیا، اس کو میری حالت پر رحم آگیا اور اس نے دس دینار دے کر مجھے فرنگیوں کی قید سے چھڑا لیا اور مجھے اپنے ساتھ حلب لے گیا، اس رئیس کی ایک لڑکی تھی، جس کے ساتھ اس نے سو دینار حق مہرکے عوض میری شادی کردی، جب کچھ عرصہ گزر گیا تو اس نے بدمزاجی اور لڑائی شروع کردی اور زبان درازی کرنے لگی، آخر اس نے میرا جینا دو بھر کردیا،کہنے لگی، کیا تو وہی نہیں ہے جسے میرے باپ نے دس دینا دے کر فرنگیوں کی قید سے چھڑایا تھا، اب بڑے شیخ بنے پھرتے ہو۔
شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کو جواب دیا: ہاں! میں بیشک وہی ہوں جسے تیرے باپ نے دس دینار دے کر فرنگیوں کی قیدسے چھڑایا اور سو دینار کے عوض تیرے ہاتھ گرفتار کرا دیا، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی بکری کو چور سے چھین کر قصاب کے ہاتھ میں دے دیا جائے، وہ بے چاری کہے گی کہ ذبح ہو جانے سے بہتر تو یہ تھا کہ میں چور کے پاس ہی رہتی تیری عمر قید سے تو مجھے فرنگیوں کی قید