کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 138
دن ادھر ادھر پھر کر شام کو تھلیاں ہاتھ میں لیے جیسے گیا تھا ویسے ہی چلا آیا اور عرض کیا کہ عالی جاہ میں سارا دن تلاش کرتا رہا مگر مجھے کوئی زاہد نہ ملا، بادشاہ نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو، اس شہر میں تو سینکڑوں زاہد ہیں، دانا غلام نے عرض کیا: جو زاہد ہیں وہ تو لیتے ہی نہیں اور جولیتے ہیں وہ زاہد ہی نہیں، ( یعنی اس کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ زاہد تو اس کو کہتے جو دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرے اور اللہ سے لو لگائے، جو دولت کا چاہنے والا ہو وہ زاہد کیسے ہوسکتا ہے؟) بادشاہ نے غلام کی یہ پر حکمت باتیں سنی تو خاموش ہوگیا۔(علمی مزاح:صفحہ38) ایک دفعہ مشہور شاعر فراق گورکھ پوری کے اعزاز میں شام غزل منعقد کی گئی، ایک نو جوان شاعرنے ان کی تعریف میں غزل پڑھی، اس کا آخری شعر فراق صاحب کے ایک شعر سے ملتا جلتا تھا ، تقریب کے اختتام پر فراق صاحب نے نوجوان شاعر سے اس شعر کے متعلق دریافت کیا، وہ کہنے لگے: ’’قبلہ ! خیال سے خیال ٹکرا گیا۔‘‘ فراق صاحب سنجیدگی سے بولے: ’’ اے کبھی سائیکل اور ہوائی جہاز کی بھی ٹکر ہوسکتی ہے۔‘‘ (ننھے مجاہد:23ستمبر2005ء) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بڑے زندہ دل اور حاضر جواب تھے، طنز و مزاح میں ان کا جواب نہیں تھا۔ بہت سے مسائل لطیفوں میں حل کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک پادری شاہ صاحب کی خدمت میں آکر کہنے لگا: ’’کیا آپ پیغمبر(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے حبیب ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ بے شک