کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 133
’’ میں نے نہیں کہا تھا کہ دیگ پر چمچہ کی آواز بہترین ساز ہے،اب تم نے خود دیکھ لیا کہ کس قدر دلکش اور جاں پرور آواز ہے۔‘‘ (تریتہ العثاق ص 197،198) صقلاطی سے مروی ہے ان کے مغربی جانب ایک شخص تھا اس نے اپنے غلام کو کسی گاؤں بھیجا کہ وہاں سے بکریاں لے آئے انہوں نے بکری کے دس بچے اسے دے دیے اور الگ پرچہ پر تعداد وغیرہ لکھ کر اِسے دے دی یہ جب واپس آیا بکریاں نوتھیں۔ مالک نے پوچھا: انہوں نے کتنی بکریاں بھیجیں اس نے کہا دس مالک نے کہا یہ تو نو ہیں غلام نے کہا نہیں دس ہیں مالک نے گن کر دکھائیں ایک دو تین ،نو غلام نے کہا واللہ مجھے نہیں پتا آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ دس ہی ہیں ، اس نے پھر گنیں تو غلام نے کہا اچھا دس آدمی کھڑے کرو اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک بکری کا بچہ دے دو تو پتا چل جائے گا مالک نے ایسا کیا تو ایک آدمی پھر بچ گیا تو اس نے غلام کو کہا اس کے پاس کچھ نہیں ہے غلام نے کہا یہ گھوم کر دوبارہ آخر میں آگیا یہ پہلے بکری کا بچہ لے چکا ہے۔ (اخبار الحمقی والمغفلین از حافظ جمال الدین ابو الفرج عبدالرحمن ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ) ایک دفعہ مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کا مناظرہ ایک عیسائی پادری سے تھا، انگریز کا دور حکومت تھا اس پادری کا رنگ کوے کی طرح کالا سیاہ تھا،انگریزوں نے اس کو اپنی طرف سے عورت دی ہوئی تھی، جس کا رنگ سفید تھا۔ مولانا امرتسری رحمۃ اللہ علیہ پہلے سے مناظرے والی جگہ موجود تھے، اس مناظرے کو دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں مسلمان اور عیسائی بھی جمع تھے،مولانا رحمۃ اللہ علیہ تیاری کے