کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 132
ہارون الرشید نے حکم دیا کہ اسے سولی پر لٹکا دیا جائے چنانچہ اسے پھانسی دے دی گئی، ابھی وہ سولی پر لٹکا ہوا تھا کہ کوئی ظریف آدمی وہاں سے گزرا اور سولی کی طرف دیکھ کر بولا: ’’واہ نوح! تمہیں اپنی کشتی سے مسطول کے سواکچھ ہاتھ نہ آیا؟‘‘ (البواقیت العصریہ: ص :120) ایک دن امیرخسرو رحمۃ اللہ علیہ بادشاہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور اس بات پر بحث ہورہی تھی کہ سازوں میں کون سا ساز بہتر ہے؟ کسی نے کہا: ستار بہتر ہے، کسی ن ے کہا سارنگی، کسی نے کچھ کہا اور کسی نے کچھ ،امیر خسرو خاموش بیٹھے سن رہے تھے، لوگوں نے کہا حضرت آپ بھی فرمائیے، آپ کیوں چپ بیٹھے ہیں؟ بادشاہ نے ان کی طرف دیکھا اور رائے زنی کا اشارہ کیا، آپ نے فرمایا: ’’بہترین ساز ہے ،دیگ پر چمچہ کی آواز‘‘ سب لوگ مذاق سمجھ کے ہنسنے لگے اور آپ خاموش ہوگئے، ایک ہفتہ کے بعد آپ نے بادشاہ اور سب امراء وزراء کو کھانے اور سماع کی دعوت پر بلایا، سب خوش ہوئے کہ امیر خسرو فن موسیقی کے ماہر ہیں ،ان کے ہاں نہایت اعلیٰ قسم کی محفل ہوگی، بہت دیر تک محفل سماع ہوتی رہی، یہاں تک کہ رات کے تین بچ گئے، سب لوگ بھوک کے ہاتھوں پریشان ہورہے تھے، ذوق وشوق میں کافی فرق آگیا آپ نے اندر جاکر باورچی سے کہا، اب زور سے دیگ پر چمچہ مارو، جب اس نے چمچہ مارا تو اس کی آواز سن کر سب لوگوں کی جان میں جان آئی اور محفل میں پھر وہی رونق بحال ہوگئی یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا