کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 129
کیوں کہ میرا والد سمندر میں فوت ہوا تھا اور اسے مچھلیوں نے کھایا تھا، انہوں نے کہا: اچھا! پھر مچھلیوں سے والد کا بدلہ لے لو، پس وہ بیٹھ گیا اور ایک چھوٹی مچھلی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اسے اپنے کان کے پاس لے گیا اور ساتھ ہی بڑی مچھلیوں والے برتن کی طرف دیکھ رہا تھا، کہنے لگا: تم جانتے ہو کہ یہ مچھلی مجھے کیا کہہ رہی ہے؟ انہوں نے جواب دیا:نہیں! اس نے کہا: وہ کہہ رہی ہے میں تیرے باپ کی موت کے وقت دنیا میں موجود نہ تھی اور نہ ہی اسے پایا کیوں کہ اس کی عمر اس وقت سے کم ہے، وہ کہہ رہی ہےکہ گھر کے ایک کونے میں پڑی ہوئی مچھلیوں پر ٹوٹ پڑو، کیوں کہ وہی تیرے باپ کی زندگی میں موجود تھیں اور انہوں نے اسے کھایا۔( تاریخ بغداد از خطیب بغدادی) قاضی ابوبکر رحمتہ اللہ علیہم نقل کرتے ہیں کہ جس زمانہ میں منصور بغداد کا خلیفہ تھا، موسیٰ بن عیسیٰ ہاشمی نام کے ایک شخص نے اپنی بیوی کو فرط محبت میں یہ کہہ دیا کہ : اگر تم چاند سے زیادہ حسین نہ ہو تو تمیں تین طلاق۔‘‘ بیوی سخت پریشان ہوئی اور سمجھی کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اس لیے شوہر کے سامنے آنا بھی بند کردیا، شوہر نے یہ الفاظ فرط محبت سے کہہ دیے تھے، مگر جب ہوش آیا تو اسے بھی فکر ہوئی اور اس کی ساری رات بڑے اضطراب میں گزری، بڑی مشکل سے صبح ہوئی تو وہ خلیفہ منصور کے پاس پہنچا اور واقعہ بتلایا، منصور نے فوراً شہر کے بڑے بڑے علماء و فقہاء کو جمع کر کے مسئلہ ان کے سامنے رکھا، اکثر فقہاء کی رائے یہ ہو رہی تھی کہ طلاق واقع ہوگئی ہے، اس لیے اس کی بیوی فی الواقعہ چاندسے زیادہ اچھی نہیں ہے۔ لیکن ایک فقیہ تھے جنہوں نے یہ رائے پیش کی کہ طلاق واقعہ نہیں ہوئی، اس سے وجہ پوچھی گئی تو انہوں نےکہا کہ یہ وجہ ہے کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: