کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 120
باہمی مناظرہ چھوڑ، واللہ میں اپنی رضا ورغبت سے یہ کپڑے تجھے دے دوں گا، تو اس نے تھوڑی دیر گردن جھکائی پھر سراٹھا کر کہنے لگا کہ تو پتہ ہے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟ میں نےکہا نہیں۔ میں نے نگاہ دوڑائی ان تمام لیٹروں کے معمول پر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے آج تک ہوئے ہیں تو مجھے کوئی بھی لیٹرا ایسا نہیں ملا جس نے ایسا کیا ہو اور مجھے یہ بات بہت ہی مکروہ اور ناگوار گزری ہے کہ اسلام میں ایک ایسی بدعت جاری کردوں کہ اس کا بوجھ میری گردن پر رہے اور جو میرے بعد اس پر عمل کرے قیامت تک اس کا بوجھ میری گردن پر رہے، بس کپڑے اتار، میں نے کپڑے اتار کر اسے دے دیے اور وہ لے کر چل دیا۔( کتاب الاذکیاء از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ) ہری پوری ہزارہ میں قیتل شفائی اور ان کے دوستوں نے 1993ء میں ڈاکٹر اقبال کی پہلی برسی کے سلسلے میں مشاعرے کا اہتمام کیا۔ چندہ اکٹھا کرنے کے سلسلے میں ایک دکاندار کو انہوں نے کہا: ’’ ڈاکٹر اقبال کی برسی کے سلسلے میں یہ مشاعرہ ہو رہا ہے۔‘‘ اس نے آبدیدہ ہو کر پوچھا: ’’ کیا سچ مچ ڈاکٹر اقبال وفات پاگئے ہیں۔‘‘ اس پر قیتل شفائی نے حیران ہو کر پوچھا: ’’ آپ انہیں جانتے تھے۔‘‘ اس پر اس نے کہا: ’’ کیوں نہیں ابھی دوسال پہلے میری بھینس بیمار ہوگئی تھی انہوں نے بڑی