کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 12
فرح سے مراد ہنسنا نہیں ہے بلکہ گھمنڈ کرنا اور اترانا ہے ۔یہی مفہوم تمام مفسرین نے بیان کیا ہے۔ غرض کہ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے ، جس سے ہنسنے ہنسانے اور مذاق کرنے کی ممانعت ثابت ہو۔بلکہ اس کے برعکس مذاق کرنا اور ہنسنا ہنسانا ایک جائز کام ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عملی نمونوں سے واضح ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کرنے میں ہنسنے ہنسانے والی کیفیت بڑا رول ادا کرتی ہے۔ اسی لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے۔ ’’ ان القلوب تمل کما تمل الابدان فابتغوا لها طرائف الحکمة‘‘ جس طرح جسم اکتا جاتے ہیں اسی طرح دل بھی اکتاتے ہیں۔ اس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے حکمت سے پرلطیفے تلاش کیا کرو۔ اور یہ بھی فرماتے ہیں۔ روحوا القلوب ساعۃ بعد ساعۃ۔ فان القلوب اذا کرہ عمی۔ ’’دل کو تھوڑی تھوڑی دیر میں آرام اور تفریح دیا کرو۔ کیوں کہ دل میں اگر کراہیت آگئی تو دل اندھے ہو جائیں گے۔‘‘ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل تماشے کے ذریعے آپ کو طاقت فراہم کرتا ہوں تاکہ حق کے کام کے لیے میں چست اور پھرتیلا رہوں۔ ہنسی مذاق جائز ہے لیکن حد کے اندر رہ کر کیونکہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے۔ہنسی مذاق کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال کرنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جھوٹی باتیں گھڑ کر لوگوں کو ہنسانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جیسا کہ بعض لوگ یکم اپریل کے دن کرتے ہیں۔ حدیث ہے کہ ’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ ایک دوسری