کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 116
احمد بن الحسن المقری نے بیان کیا کہ بنان ایک دعوت نکاح کے موقع پر پہنچا اندر پہنچنے کی صورت نہ بن پڑی تو ایک بقال کے پاس پہنچا اور اس سے دس پیالے شہد لے کر اپنی انگوٹھی رہن رکھ دی اور شادی والے گھر کے دروازے پر پہنچا اور آواز دی کہ اے دربان دروازہ کھول ، دربان نے کہا تو کون ہے، بنان نے کہا تو کون ہے، بنان نے کہا غالباً تو مجھے نہیں پہچانتا میں وہ ہوں جس کو پیالے لینے کے لیے بھیجا تھا، دربان نے دروازہ کھول دیا، بنان نے داخل ہو کر لوگوں کے ساتھ کھایا پیا جب فارغ ہوگیا تو پیالے اٹھا کر آلیا اور دربان سے کہا دروازہ کھولو وہ لوگ بالکل خالص شہد چاہتے ہیں ان کو واپس کرنا پڑے گا پھر آکر پیالے بقال کو واپس کرگیا اور اپنی انگوٹھی لے گیا۔(کتاب الاذکیا....از امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ)
ایک آدمی نے قاضی ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا: ’’ پستے کا حلوہ زیادہ مزیدار ہوتا ہے یا بادام کا۔‘‘
قاضی صاحب نے فوراً جواب دیا: ’’ معاملہ انصاف کا ہے اور میں فریقین کی عدم موجودگی میں فیصلہ نہیں کرسکتا، دونوں کو حاضر کیا جائے ، تو بتاؤں گا۔‘‘ (اردو ڈائجسٹ ، فروری2004ء)
کانپور کے ایک مشاعرے میں مقامی شاعر نشتر جو خاصا تن و توش رکھتے ہیں ان کو دیکھتے ہیں فراق بول اٹھے:
’’ اتنا موٹا نشتر یہ تو ظلم ہے۔‘‘