کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 112
کر اس نے کاٹنا شروع کر دیا اور ترکی اسے دیکھ رہا تھا، اس کی وجہ سے درزی کو کچھ کپڑا چرانے کا موقع نہیں مل رہا تھا تو درزی نے زور سے ایک گوز مارا اس کو سن کرترکی ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا اس دوران درزی کو جتنا کپڑا اڑانا تھا اڑا لیا، پھر ترکی نے سیدھا بیٹھ کر کہا کہ درزی ایک دفعہ پھر، تو درزی نے کہا اب جائز نہیں ، قبا تنگ ہو جائے گی۔(کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ)
امرتسرسے روانہ ہونے والی بس کے ایک مسافر نے کنڈیکٹر کو پیسے دیے اور کہا:’’ آنند پور کا ایک ٹکٹ دے دو۔‘‘
بس میں نہنگ سنگھ بھی سوار تھا۔ نہنگ سنگھ بھی ان سکھوں میں سے ایک تھا جو مذہبی جنونی ہوتے ہیں، اس نے مسافر کو ایک تھپڑ مارا اور کہا: ’’ آنند پور ہمارا مقدس مقام ہے، نرا آنند پور کیا ہوا، آنند پور صاحب کہو۔‘‘
دوسرے مسافر نے پہلے کی درگت بنتے دیکھی ، تو کنڈیکٹر سے کہا:’’ مجھے انبالہ صاحب کا ایک ٹکٹ دے دو۔‘‘
نہنگ صاحب نے اسے بھی ایک تھپڑ دے مارا اور کہا:’’ یہ انبالہ کب سے صاحب ہوگیا، صرف انبالہ کہو۔‘‘
تیسرے مسافر نے یہ دیکھ کر پیسے کنڈیکٹر کی ہتھیلی پر رکھے اور نہنگ سنگھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’یہ صاحب جہاں کا ٹکٹ کہیں مجھے وہیں کا ہی بنادو۔‘‘ (اردو ڈائجسٹ، فروری2004ء)