کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 110
’’بے شک ان دیار کے خیال نے میرے غم کو بھڑکا کر میرے سر کے بال اتار دیے اور میری بدبختی پر مجھے رلایا اور میرے سرکو گردن کی طرح کردیا۔‘‘ تو ابن حسن نے کہا کہ بیٹے تم غلام یا باندی کے اہل تو نہ بن سکے مگر تم جیسے بیٹے کو جنم دینے کی وجہ سے تمہاری ماں کو تین طلاق دیتا ہوں۔ (حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقی ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ) اہل کوفہ مامون الرشید کے پاس اپنے عامل کے ظلم کی شکایت لے کر آئے،مامون نے کہا: میرے خیال میں تو اس سے زیادہ عادل کوئی نہیں، اس قوم میں سے ایک شخص نے کہا: اے امیرالمومنین پھر تو آپ کے لیے یہ ضروری ہوگیا کہ آپ تمام شہروں کو اس کے عدل میں حصہ دار بنادیں تاکہ عامل کی الطاف وکرم کی نظر تمام رعایا پر مساوی ہوجائے لیکن ہم کو ان کےعدل سے تین سال سے زیادہ تک نہ نوازا جائے ، یہ سن کر مامون ہنس پڑا اور اس کو بدل دینے کا حکم دے دیا۔ (لطائف علمیہ ،اردو ترجمہ کتاب الذکیا) پاکستان دانشوروں کا ایک وفد نئی دہلی آیا تو اس میں مولانا عبدالمجید سالک بھی تھے۔ سالک صاحب کا قیام فتح پوری کے ایک ہوٹل میں تھا۔ خوشتر گرامی اور پنڈت ہری چند اختر، مولانا سالک کے ہاں ہوٹل میں حاضر ہوئے تو ہوٹل کے ملازم سے خوشتر گرامی نے دریافت کیا: ’’تمہارے یہاں گوشت جھٹکے کا پکتا ہے یا حلال کا۔‘‘