کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 11
اس جذبے میں کمی آ جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اے حنظلہ! اگر تم ایک جیسے حال میں ہمیشہ رہو (وہ ایمانی کیفیت برقرار رہے جو میرے پاس رہنے سے طاری ہوتی ہے) تو فرشتے تم سے مصافحہ کرنے لگیں یعنی تم فرشتوں کی صف میں شامل ہو جاؤ گے۔ لیکن اے حنظلہ! چند گھڑیاں یوں ہوتی ہیں اور چند گھڑیاں کچھ اس سے مختلف ہوتی ہیں ۔ (تم انسان ہو، فرشتے نہیں یقیناً تمہاری کیفیت فرشتوں سے مختلف ہوگی۔ تمہاری چند گھڑیاں سنجیدگی اور حد درجہ ایمانی کیفیت میں گزرتی ہیں، تو چند گھڑیاں اس سے مختلف۔ ہنسی مذاق اور پرلطف ماحول میں بھی گزریں گی)  حقیقت یہ ہے کہ چہرے پر خشونت اور باتوں مین روکھا پن لیے ہوئے بعض دین دار ھضرات محض اپنی طبیعت اور فطرت کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں۔ اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے دین دار حضرات سے اسلام سیکھنے کی بجائے قرآن مجید، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بہترین عملی نمونوں سے اسلام سیکھیں۔ اب ذرا ان دلیلوں پر نظر ڈال لیں جو آپ نے اپنے سوال میں پیش کی ہیں۔   پہلی حدیث میں بہ کثرت اور بہت زیادہ ہنسنے سے منع کیا گیا ہے۔ صرف ہنسنے کی ممانعت نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے۔ خواہ ہنسنے کی زیادتی ہو یا رونے کی یا کسی اور چیز کی۔   یہ حدیث کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہمیشہ غم کی کیفیت طاری رہتی تھی۔ ایک ضعیف حدیث ہے اور اسے بطور دلیل نہیں پیش کیا جا سکتا۔ بلکہ اس کے برعکس بخاری شریف کی صحیح حدیث یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں حزن و غم سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔   جہاں تک قرآن کی آیت لا تفرح۔۔۔الخ  کا تعلق ہے تو اس میں لفظ