کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 109
پر کھڑا رونے لگا سیف الدولہ کو اس کے رونے کا پتا چلا اس نے اسے بلوایا اور رونے کا سبب پوچھا اس نے کہا: ’’ میں تو حتی المقدور کوشش کی تھی اب جب میری امیدخاک میں مل گئی ہے اور میں ذلیل ہوگیا ہوں تو رو رہا ہوں سیف الدولہ نے کہا تیرا ستیاناس تیری نثر جیسی نثر کہنے والا کہاں ہوگا جو اس جیسی نظم بھی کہہ سکے پھر کہا کہ تو نے کتنے کی امید کی تھی، اس نے کہا پانچ سو درہم سیف الدولہ نے اسے ایک ہزار درہم دیے۔ (حماقت اور اس کے شکار اردو ترجمہ اخبار الحمقی ابن الجوزی رحمتہ اللہ علیہ) پاکستان کا سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک مرتبہ بہت بڑے اجتماع سے خطاب کررہا تھا۔ دوران تقریر کسی دل جلے مخالف نے احتجاجاً جوتا اونچا کیا۔ مقصد یہ تھا کہ بھٹو احتجاج کو سمجھیں۔ بھٹو کی نظر پڑگئی۔ اس نے تقریر کے دوران ہی کہا: ’’ہاں ہاں! میں سمجھ گیا ہوں۔ جوتے مہنگے ہوگئے ہیں۔ سدباب کے لیے ضرور اقدام کیا جائیں گا۔‘‘ (مزاحیات کا انسائیکلوپیڈیا) محمدبن حسن کا ایک بیٹا تھا اس نے کہا کہ ابا میں نے ایک شعر کہا ہے۔ ابن حسن نے کہا سناؤ اس نے کہا اگر میں اچھا کہوں تو آپ مجھے ایک باندی یا غلام ہبہ کریں گے، ابن حسن نے کہا دونوں دوں گا، اس نے شعر سنایا: ان الديار طيغا هيجن حزنا قدعفا ابكيننى لشقاوتى وجعلن راسى كالقفا