کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 106
دیجئے گا کہ یا تو وہ اپنا نام بدل لیں یا پھر چائے کا بل ادا کردیا کریں۔‘‘ ( مزاحیا کا انسائیکلوپیڈیا)
جنرل ایوب کے دور میں جب پاکستان رائٹر گلڈ قائم ہوا تو ا س کا دفتر ایکسلیئر ہوٹل کراچی میں تھا۔ پہلے اجلاس کے موقع پر ملک کے دوسرے حصوں سے بھی ادیب اور شاعر کراچی آئے تھے۔ ایک روز گلڈ کے دفتر میں اے حمید، شوکت صدیقی، ابراہیم جلیس اور چند دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ چند مزدور ایک بڑی سی لوہے کی الماری سیڑھیوں پر سے کھینچتے دھکیلتے اوپر لا رہے تھے۔ شور سن کر شوکت صدیقی نے پوچھا:
’’کیسا شور ہے.....؟‘‘
اس زمانے میں ممتاز مفتی کا ضخیم ناول علی پور کا ایلی شائع ہوا تھا اور ادبی حلقوں میں اس کی ضخامت کے چرچے تھے۔ ابن انشاء نے اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف جھانکا جس پر شوکت صدیقی نے دریافت کیا:
’’ کیا اوپر چڑھا رہے ہیں...؟
اس پر ابن انشاء بولے:.
’’ کچھ نہیں.......مزدور مفتی کی کتاب علی پور کا ایلی رسوں کے ذریعہ اوپر کھینچ رہے ہیں۔‘‘ (مزاحیات کا انسائیکلوپیڈیا)