کتاب: اسلام میں تصور مزاح اورمسکراہٹیں - صفحہ 101
ختم ہو چکا ہے اور لوگ کھانے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف ہیں، تلوک چند محروم کو کھانے سے محروم دیکھ کر ایک شاعر دوست نےکہا: ’’ محروم بھائی اپنا تخلص تبدیل کرلیں تاکہ آئندہ بھی محروم نہ رہنا پڑے۔‘‘ بیان کیا گیا کہ مزید ایک والی مدینہ کے ہاں (ایک وقت معین پر رواز نہ) آیا کرتا تھا، ایک دن دیر سے پہنچا۔ والی نے پوچھا کہ آج اتنی دیر کیوں کی تو جواب دیا کہ مجھے عرصہ سے ایک اپنے ہمسایہ عورت سے محبت تھی آج کی رات میں مقصد میں کامیاب ہو سکا اور اس پر میں نے قابو پالیا، یہ سن کر والی غضب ناک ہوگیا اور کہنے لگا کہ واللہ تیرے اقرار سے ہم تجھ کو ضرور ماخوذ کریں گے جب مزید نےدیکھا کہ والی کی گفتگو سنجیدہ ہے( اور یہ ضرور ماخوذ کرے گا) تو کہنے لگا میری پوری بات تو سن لیجیے، والی نے کہا وہ کیا؟ جب صبح ہوئی تو میں تعبیر بتانے والے کی جستجو میں نکلا جو میرے خواب کی ٹھیک تعبیر دے سکے اب تک میں کامیاب نہ ہوسکا۔ والی نے پوچھا : کیا وہ باتیں تو نےخواب میں دیکھی تھیں اس نے کہا ہاں تو اس کا غصہ جاتا رہا۔(کتاب الاذکیا، از امام جوزی رحمتہ اللہ علیہ) وہ ڈرامہ نویس کم اور ریڈیو اسٹیشن کا افسر زیادہ تھا، شاید اسی وجہ سے ریڈیو اسٹیشن میں کام کرنے والے کچھ ادیب غیر معمولی توجہ اور تکلف سے اس کا لکھا ہوا نیا ڈرامہ سن رہے تھے، جب وہ تمام مسودہ پڑھ چکے، تو فکر تونسوی اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے چیخ اٹھا:’’ یہ ڈرامہ آپ نے لکھا ہے؟‘‘ ’’ رات پچھلی رات...... بس ایک ہی نشست میں پورے کا پورا لکھ