کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 9
سے ڈرنے والا اورپرہیزگار ہوں ۔اس کے باوجود میں روزہ رکھتا بھی ہوں او رچھوڑتا بھی ہوں رات کو قیام کرتاہوں اور سوتابھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں توجوکوئی میری سنت کوناپسند کرے اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ نوافل بھی اسی حد تک تقربِ الٰہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا یا ہے ۔جو کوئی اس حد سے آگے بڑھے گا وہ ثواب حاصل کرنے کی بجائے الٹا معصیتِ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتکب قرارپائے گا اور گنہگار ہوگا۔ زکوٰۃ کی مثال : بعینہٖ یہی مثال اسلام کے دوسرے اہم رکن زکوٰۃ کی بھی ہے جو ہمارے موضوع سے مناسبت بھی رکھتی ہے ۔زکوٰۃ کا نصاب‘ محلِ نصاب اشیاء اورزکوۃ کی شرح جوشریعت نے مقررکی ہے اس کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ اتنی شرائط کے تحت اور اتنی قلیل مقدار میں بھی انفاق فی سبیل اللہ نہ کرنے والا(قانونی زبان میں زکوٰۃ ادانہ کرنے والا)دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے ۔جس طرح فرض نمازکا تارک کافر ہے بعینہٖ اسی طرح فرض صدقہ (زکوٰۃ)کا منکر بھی کافر ہے او راس بات کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتاہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے مانعینِ زکوٰۃ سے جہاد کیا تھا ۔ فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ کے علاوہ نفلی صدقات کا میدان بھی نفلی نمازوں کی طرح بہت وسیع ہے اور ان کی بھی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً : واجبی صدقات: واجبی صدقات بھی دو قسم کے ہیں ۔ایک تو وہ ہیں جو مختلف گناہوں کے کفارے ہیں مثلاً: ۱۔ جو شخص احرام کی حالت میں شکار کرے اس پر اس شکار کی مثل جانور یا اس کاعوض (نقدی وغیرہ کی صورت میں)صدقہ کرنا واجب ہوتاہے یا اس کے عوض کے برابر مسکینوں کو کھانا کھلانا ضروری ہے ۔ ( مائدۃ:۹۵) ۲۔ فرضی روزہ توڑنے کا کفارہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی ہے اور غلام آزادکرنا بھی۔ (بخاری ۔کتاب الصوم۔ باب اذا جامع…) ۳۔ احرام کی حالت میں شکار کرنے والے کے کفارہ کی ایک شکل ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ۔(مجادلۃ:۴) ۴۔ قسم توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں پوشاک مہیا کرنا یا غلام آزاد کرنا ہے ۔ (مائدۃ:۸۹) ۵۔ جولوگ روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں۔ ان کا فدیہ بھی ایک مسکین کا دووقت کا کھانا ہے ۔(بقرۃ:۱۸۴)