کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 8
اوردن کو روزہ رکھ لیا کرتے ۔ان کی اس بات سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد بھی پریشان تھے او ر بیوی بھی ۔آخر باپ نے اس بات کارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ کوبلایا اور فرمایا۔’’میں نے سناہے کہ تم رات بھر قیام کرتے ہو او ر سوتے نہیں اور ہمیشہ دن کو روزے رکھتے ہوچھوڑتے نہیں۔‘‘
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا’’ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ !‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’یوں کرو کہ رات کوقیام بھی کرو ا ورسوؤبھی کیونکہ تیری آنکھوں کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے اور ایک ماہ میں تین روزے رکھ لیا کرو ۔اللہ تعالیٰ دس گنا اجردیتاہے ۔ تمہارے پورے مہینے کے روزے لکھے جائیں گے ۔‘‘
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے۔ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اچھا ایک ماہ میں دس روزے رکھ لیا کرو۔ایک دن روزہ رکھو اور دو دن چھوڑدو۔‘‘
حضرت عبداللہ کہنے لگے ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اچھا داؤد علیہ السّلام کا روزہ رکھو۔‘‘
حضرت عبداللہ نے پوچھا’’وہ کیا ہے ؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن چھوڑتے تھے اور دشمن کے مقابلہ سے بھاگتے نہیں تھے[1]۔‘‘ (بخاری کتاب الصوم۔ باب حق الاھل فی الصوم)
اسی طرح کاایک اور واقعہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ ہواکہ تین اشخاص (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ‘ حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالی عنہ‘اور حضرت عثمان بن مظعو ن رضی اللہ تعالی عنہ)درِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوئے آپ گھر پر موجودنہ تھے ۔ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھا ۔ جب انہیں بتایا گیا تو انہوں نے گویا اپنی عبادت کو کم سمجھا اورکہنے لگے ’’کہاں ہم اورکہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ان کے تو سب اگلے پچھلے گناہ معاف کئے جاچکے (یعنی ہمیں ان سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے )پھر ایک نے کہا ’’ میں رات بھر قیام کیا کروں گا اور سوؤں گا نہیں۔‘‘ دوسرے نے کہا ’’میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اورکبھی نہ چھوڑوں گا ۔ ‘‘ تیسرے نے کہا ’’میں کبھی نکاح نہیں کروں گا اور عورتوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہوں گا ۔‘‘ وہ یہ باتیں کرکے گئے ہی تھے کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے ۔انہیں اس گفتگو کا حال معلوم ہوا تو انہیں بلایا اور فرمایا۔
«انتم الذین قلتم کذا وکذا ؟اما واللّه انّی لاخشاکم لِلّه واتقاکم لٰکنّی اصوم وافطِر واصلّی وارقُدُ واتزوّج النّسآء فمن رَغِبَ عَن سنّتی فلیس منّی»(بخاری ۔کتاب النکاح۔با ب الترغیب فی النکاح)
ترجمہ:’’کیا تم لوگوں نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں ۔؟خدا کی قسم !میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ
[1] یعنی باری باری روزہ رکھنے کے بعد بھی حضرت داؤد کی جسمانی طاقت بحال رہتی تھی۔