کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 7
فرض رکعات دو ہیں ۔ظہر کی چار ‘عصر کی چار‘ مغرب کی تین او رعشاء کی چار ۔ اب ان رکعات پر جو اضافہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تطوعًاکیا ‘وہ ہمارے لیے سنت رکعات ہیں ۔ مثلاً فجر کی نماز سے پہلے دورکعات سنت یا ظہر سے پہلے چار اور بعد میں دورکعت سنت وغیرہ ۔پھر ان فرض او رسنت رکعات پر مزیدرکعات کا تطوعًا اضافہ ہوا اسے نفل کہتے ہیں ۔ مثلاً ظہر کے آخر میں دو رکعت ‘مغرب کے بعددورکعت نفل او رعشاء میں چار رکعات نوافل ہیں ۔
۲۔ یہ پانچ نمازیں تو ہر عاقل بالغ ‘مرد ‘عورت پر فرض ہیں۔پھرکچھ نمازیں ایسی ہیں جو ہیں تو فرض مگر ہر ایک پر نہیں۔انہیں فرضِ کفایہ کہتے ہیں ۔مثلاً نماز جمعہ او رنماز جنازہ او رکچھ نمازیں ایسی ہیں جو سنت ہیں مثلاً تہجد کی نماز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو فرض تھی مگر امت کے لیے سنت موکدہ ہے ۔پھر کچھ نمازیں نفل کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً چاشت اور اوابین اور شکرانہ کے نوافل جن کا کوئی وقت مقرر نہیں اور کچھ نمازیں ایسی ہیں جن کا تعلق صرف حالات سے ہوتاہے۔مثلاً نمازِ استسقاء‘ نمازخسوف او ر کسوف وغیرہ ۔
اب دیکھیے فرض نمازوں اور بالخصوص فرض رکعات کا تارک کافرہے ۔فرض کفایہ اورسنت موکدہ کا تارک گنہگار ہوتاہے او رنوافل کی عدم ادائیگی سے کچھ بھی نہیں بگڑتا لیکن ادائیگی کے فائدے ضرور ہیں ۔ایک فائدہ تو یہ ہوتاہے کہ فرائض کی کمی ان سے پوری کردی جاتی ہے دوسرے نوافل میں کثرت ترقی درجات کاسبب بنتی ہے ۔ لہٰذا جہاں تک ہوسکے ان سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے ۔
ترغیبات کی حد:
نوافل جتنے بھی بجالائے جائیں تقربِ الہٰی کاذریعہ بنتے ہیں تاہم ان کی بھی ایک حدہے جو شریعت نے مقرر کردی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر وبن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کاآپ رضی اللہ تعالی عنہ کے والدنے نکاح کیا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنی بیوی سے چنداں دلچسپی نہ رکھتے اورساری رات نمازمیں گزاردیتے