کتاب: اسلام میں فاضلہ دولت کا مقام - صفحہ 5
شرعی احکام کی حِکمت
شریعتِ اسلامیہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے احکام مسلمانوں کی اکثریت کے لیے اور نارمل حالات میں قابلِ عمل ہوتے ہیں ۔جب حالات بدل جائیں تو احکام میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کردی جاتی ہے ۔پھر یہ احکام چونکہ ایک عام انسان کی استعداد یا قوتِ کار کو ملحوظ رکھ کر دیے جاتے ہیں لہٰذا عام استعداد سے کم استعداد رکھنے والوں کے لیے رعایت کو ملحوظ رکھا جاتاہے اور عام استعداد سے زیادہ استعداد رکھنے والوں کے لیے وسیع میدان عمل کو سامنے لاکر انہیں اس کی زیادہ سے زیادہ بجاآوری کی ترغیب دی جاتی ہے ۔پھر ان احکام کی بجاآوری کے سلسلہ میں مزید دو باتوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہوتاہے ۔
۱۔ ان تمام مراعات کے باوجود اگرکوئی مسلمان ان احکام کی ٹھیک طورپر بجاآوری میں کمی کرتا ہے یااس سے انکار کرتاہے تو اس کا یہ عمل یا تو اسے دائرہ اسلام سے ہی خارج کردے گا یاوہ کم ازکم گناہ کبیرہ کا مرتکب ضرور ٹھہرے گا ۔
۲۔ ترغیبات کی بھی ایک حد ہے جو شریعتِ اسلامیہ نے مقررکردی ہے ۔ اب اگر کوئی شخص اس حدسے بھی بڑھنے کی کوشش کرے گا تو ا س کا یہ عمل اس کی خلوص نیت کے باوجود سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود قرار پائے گا اور وہ شخص اجر کے بجائے الٹاسزا کا مستوجب ٹھہرے گا ۔
نماز کی مثال:
اب میں ان تمام باتوں کو ایک دو مثالوں سے سمجھاؤں گا ۔شریعتِ اسلامیہ نے ہر عاقل بالغ مسلمان پر پانچ وقت کی نماز فرض کی ہے اور ہر نماز کی فرض رکعات کو متعین کردیا ہے ۔یہ بھی بتادیا ہے کہ یہ نماز مسجد میں جاکر جماعت کے ساتھ اداکی جائے گی۔
اس سے بیشتر وضو (طہارت)بھی لازمی ہے ۔اب اس حکم میں حالات اور کم استعداد والوں کے لیے مراعات او رزیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات ملاحظہ فرمائیے۔